وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ
اور جب میں بیمار پڑتا ہوں تو وہ مجھے شفا دیتا ہے۔
1۔ وَ اِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِيْنِ : یعنی وہی ہے جو مجھے کھلاتا ہے اور پلاتا ہے، مگر میں جب اس کھانے پینے میں حد اعتدال سے گزر کر بیمار ہوتا ہوں، یا اپنی کسی اور غلطی کی وجہ سے بیمار ہوتا ہوں تو وہی ہے جو پھر مجھے شفا دے دیتا ہے۔ یہ پچھلی آیت کے ساتھ ایک لطیف مطابقت ہے۔ بعض طبیبوں کا کہنا ہے کہ اگر مُردوں سے پوچھا جائے، تمھاری موت کا سبب کیا ہوا تو اکثر یہی کہیں گے کہ زیادہ کھانے سے، بدہضمی سے۔ 2۔ اگرچہ بیماری اور شفا دونوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں، مگر ابراہیم علیہ السلام نے یہاں بیمار ہونے کی نسبت اپنی طرف کی ہے کہ ’’جب میں بیمار ہوتا ہوں‘‘ اور شفا دینے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی ہے کہ ’’ فَهُوَ يَشْفِيْنِ ‘‘ (تو وہی مجھے شفا دیتا ہے)، اس میں ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا ادب ملحوظ رکھا ہے کہ خیر و شر دونوں کا خالق ہونے کے باوجود شر کی نسبت اس کی طرف نہ کی جائے، جیسا کہ صحیح مسلم (۷۷۱)کی ایک حدیث میں ہے :(( وَالشَّرُّ لَيْسَ إِلَيْكَ )) اور جیسا کہ سورۂ فاتحہ میں’’اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ‘‘ میں انعام کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے، مگر ’’الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ‘‘ میں ’’غضب‘‘ اور ’’ضلالت‘‘ کی نسبت اس کی طرف نہیں ہے اور سورۂ کہف (۷۹ تا ۸۲) میں خضر علیہ السلام نے تینوں واقعات کی تاویل بیان کرتے وقت اس ادب کو خوب ملحوظ رکھا ہے اور سورۂ جن (۱۰) میں جنوں نے بھی اس ادب کو ملحوظ رکھا ہے۔ ’’فَهُوَ يَشْفِيْنِ‘‘ میں بھی حصر ہے کہ وہی مجھے شفا دیتا ہے، کوئی اور نہیں، کیونکہ اور بھی بے شمار ہستیاں ہیں جن کو لوگوں نے شفا دینے والے سمجھ رکھا ہے۔