فَلَمَّا تَرَاءَى الْجَمْعَانِ قَالَ أَصْحَابُ مُوسَىٰ إِنَّا لَمُدْرَكُونَ
جب دونوں جماعتیں ایک دوسرے کو نظر آنے لگیں تو موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا، اب ہم یقینا پکڑ لیے گئے۔
فَلَمَّا تَرَآءَ الْجَمْعٰنِ....: ’’تَرَاءٰی يَتَرَاءٰي تَرَائُيًا‘‘ (تفاعل) ایک دوسرے کو دیکھنا۔ جب دونوں جماعتیں ایک دوسرے کو نظر آنے لگیں تو موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی کہنے لگے کہ ہم تو یقیناً پکڑے جانے والے ہیں۔ ’’إِنَّ‘‘ اور ’’لام تاكيد‘‘ سے ان کے شدید خوف کا اظہار ہو رہا ہے کہ اب ہر صورت یہ لوگ ہمیں مار ڈالیں گے، یا پھر غلام بنا کر ساتھ لے جائیں گے۔ اس سے پہلے مصر میں بھی انھوں نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا : ﴿ اُوْذِيْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِيَنَا وَ مِنْۢ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا ﴾ [الأعراف : ۱۲۹ ] ’’ہمیں اس سے پہلے ایذا دی گئی کہ تو ہمارے پاس آئے اور اس کے بعد بھی کہ تو ہمارے پاس آیا۔‘‘ اب انھیں فرعون کی صورت میں موت نظر آئی تو انھوں نے یہ بات کہی۔ یہاں ’’قَالَ بَنُوْ إِسْرَائِيْلَ‘‘ کے بجائے ’’ قَالَ اَصْحٰبُ مُوْسٰى ‘‘ اس لیے فرمایا کہ ہجرت کرکے آنے والوں میں بنی اسرائیل کے علاوہ مسلمان بھی تھے۔