سورة الشعراء - آیت 59

كَذَٰلِكَ وَأَوْرَثْنَاهَا بَنِي إِسْرَائِيلَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

ہم نے ان کے ساتھ ایسا کیا اور ان تمام چیزوں کا مالک بنی اسرائیل کو بنا دیا۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

كَذٰلِكَ وَ اَوْرَثْنٰهَا بَنِيْ اِسْرَآءِيْلَ: ’’ كَذٰلِكَ ‘‘ کو مبتدا محذوف کی خبر بنا لیں ’’أَيْ اَلْأَمْرُ كَذٰلِكَ‘‘ یا فعل محذوف کا فاعل ’’أَيْ وَقَعَ كَذٰلِكَ‘‘ یعنی اگرچہ یہ بات ناممکن دکھائی دیتی ہے، مگر ایسے ہی ہوا اور ہم نے ان باغوں، چشموں، خزانوں اور عالی شان جگہوں کا وارث بنی اسرائیل کو بنا دیا۔ یہاں ایک سوال ہے کہ اس آیت سے ظاہر ہو رہا ہے کہ فرعون کے غرق ہونے کے بعد بنی اسرائیل مصر کی سر زمین کے مالک بن گئے، جب کہ بنی اسرائیل جہاد سے انکار کی پاداش میں چالیس برس تو صحرا ہی میں دھکے کھاتے رہے، اس کے بعد بھی معروف یہی ہے کہ ان کی پیش قدمی شام کی طرف ہوئی اور شام ہی یوشع بن نون اور بعد میں داؤد اور سلیمان علیھم السلام کی سلطنت کا مرکز تھا۔ تاریخ میں ان کی مصر واپسی کا کہیں ذکر نہیں۔ اس سوال کا حل دو طرح سے ہے، ایک وہ جو بہت سے مفسرین نے اختیار کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو بہت سے باغوں، چشموں، خزانوں اور عمدہ جگہوں کا وارث بنایا، مگر مصر میں نہیں بلکہ شام میں۔ مصر کے باغوں، چشموں وغیرہ کی وارث اور قومیں بنیں۔ ان مفسرین کے نزدیک سورۂ دخان (۲۸) میں مذکور: ﴿كَذٰلِكَ وَ اَوْرَثْنٰهَا قَوْمًا اٰخَرِيْنَ ﴾ (اسی طرح ہوا اور ہم نے ان کا وارث اور لوگوں کو بنا دیا) کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے سر زمین مصر کا وارث بنی اسرائیل کے سوا اور لوگوں کو بنا دیا۔ ابن عاشور، بقاعی اور بہت سے مفسرین کی یہی رائے ہے۔ دوسرا حل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مصر کے باغوں، چشموں اور خزانوں وغیرہ کا مالک بالآخر بنی اسرائیل کو بنا دیا، مگر ان کو نہیں جو موسیٰ علیہ السلام کے ہمراہ ہجرت کرکے وہاں سے نکلے تھے، بلکہ بنی اسرائیل ہی کی ایک اور نسل کو یہ نعمت عطا ہوئی اور یہی مطلب ہے اس آیت کا: ﴿كَذٰلِكَ وَ اَوْرَثْنٰهَا قَوْمًا اٰخَرِيْنَ﴾ [الدخان : ۲۸ ] مجھے اس رائے پر اطمینان ہوتا ہے۔ رہی یہ بات کہ تاریخ میں بنی اسرائیل کے مصر واپس آنے کا ذکر نہیں تو حقیقت یہ ہے کہ قبل مسیح کی تاریخ کا پوری طرح اعتبار مشکل ہے اور اس میں کسی بات کے ذکر نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ واقعہ ہوا ہی نہیں۔ سلیمان علیہ السلام جنھوں نے یمن کی ملکہ کی حکومت کا علم ہونے پر اسے اپنے زیر نگیں کرنے تک دم نہیں لیا اور قرآن کے بیان کے مطابق جنھیں ایسی سلطنت ملی جو بعد میں کسی کے شایان شان ہی نہیں، ان کے لیے مصر کو اپنی قلمرو میں شامل کرنا کچھ مشکل نہیں تھا۔ اس لیے فرعون کی قوم کو ان کے باغوں اور چشموں وغیرہ سے نکال لانے کے بعد ’’اور ہم نے ان کا وارث بنی اسرائیل کو بنا دیا‘‘ کے الفاظ کو ان کے ظاہر پر ہی رہنے دینا چاہیے۔ ہاں، یہ درست ہے کہ وہ بنی اسرائیل اور تھے جو وارث بنے، ’’تیہ‘‘ میں چالیس سال تک سر مارتے رہنے والے بنی اسرائیل نہیں تھے۔ (واللہ اعلم) مزید دیکھیے سورۂ اعراف (۱۳۶)۔