سورة الشعراء - آیت 6

فَقَدْ كَذَّبُوا فَسَيَأْتِيهِمْ أَنبَاءُ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

پس اب جبکہ انہوں نے جھٹلا دیا تو جس چیز کا وہ مذاق اڑاتے تھے اس کی حقیقت ان کے سامنے کھل کر آجائے گی۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

فَقَدْ كَذَّبُوْا....: یعنی یہ لوگ صرف اعراض تک ہی نہیں رہے بلکہ انھوں نے صاف جھٹلا دیا اور اس سے بڑھ کر ان چیزوں کا مذاق بھی اڑانے لگے جن کے آنے کی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی، جیساکہ’’ كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ ‘‘ سے معلوم ہو رہا ہے۔ فَسَيَاْتِيْهِمْ۠ اَنْۢبٰٓؤُا مَا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ: یعنی پیغمبر نے انھیں جن چیزوں کے واقع ہونے کی خبریں دیں، جن کا وہ مذاق اڑاتے رہے تھے، وہ بہت جلد ان کی آنکھوں کے سامنے آ جائیں گی اور انھیں معلوم ہو جائے گا کہ وہ حق تھیں۔ اس میں کفار کے لیے سخت وعید ہے۔ دیکھیے سورۂ انعام (۴، ۵)۔ 3۔ ’’ اَنْۢبٰٓؤُا ‘‘ ’’ نَبَأٌ ‘‘ کی جمع ہے، کسی بڑے واقعہ کی خبر کو ’’ نَبَأٌ ‘‘ کہتے ہیں، جیسا کہ فرمایا: ﴿وَ لَقَدْ جَآءَكَ مِنْ نَّبَاِي الْمُرْسَلِيْنَ﴾ [الأنعام:۳۴] ’’اور بلاشبہ یقیناً تیرے پاس ان رسولوں کی کچھ خبریں آئی ہیں۔‘‘ ’’ اَنْۢبٰٓؤُا ‘‘ جمع کا لفظ اس لیے استعمال فرمایا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی بہت سی باتوں کا مذاق اڑاتے رہے تھے، مثلاً قیامت، دنیا میں ان کو ملنے والی سزا، مسلمانوں کا غالب آنا، فتح مکہ، جہنم کا عذاب اور زقوم کا درخت وغیرہ۔