إِن كَادَ لَيُضِلُّنَا عَنْ آلِهَتِنَا لَوْلَا أَن صَبَرْنَا عَلَيْهَا ۚ وَسَوْفَ يَعْلَمُونَ حِينَ يَرَوْنَ الْعَذَابَ مَنْ أَضَلُّ سَبِيلًا
قریب تھا کہ یہ شخص ہمیں ہمارے معبودوں سے دور کردیتا، اگر ہم ان کے بارے میں ثابت قدم نہ رہے ہوتے، اور جب وہ لوگ عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ کون سب سے زیادہ گمراہ تھا۔
1۔ اِنْ كَادَ لَيُضِلُّنَا عَنْ اٰلِهَتِنَا....: ’’ اِنْ كَادَ ‘‘ اصل میں ’’إِنَّهُ كَادَ‘‘ تھا، یعنی بے شک وہ قریب تھا۔ یعنی یہ تو یقیناً قریب تھا کہ ہمیں ہمارے معبودوں کی عبادت ہی سے نہیں خود ان معبودوں ہی سے گمراہ کر دیتا، یہ ہماری بہادری ہے کہ ہم ان کی عبادت پر ڈٹے رہے ہیں۔ 2۔ اس سے کفار کا اپنے شرک پر شدت کے ساتھ ڈٹے رہنا ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ اسے چھوڑنے کو گمراہ ہونا قرار دے رہے ہیں اور یہ بھی کہ ان کا یہ کام کسی دلیل کی بنا پر نہ تھا، بلکہ محض آبا و اجداد کی تقلید اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے تھا۔ 3۔ اس آیت سے ان کا اعتراف ثابت ہو رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حق کی دعوت پیش کرنے، اس کے لیے دلائل و معجزات پیش کرنے اور ہر اعتراض کا جواب دینے میں اتنی محنت سے کام لیا کہ کفار کو حق تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا، پھر انھوں نے حق قبول نہیں کیا تو اس کی وجہ صرف اور صرف ان کی ہٹ دھرمی تھی۔ 4۔ پچھلی آیت کے ساتھ ملا کر اس آیت کو دیکھیں تو کفار کی عجیب تضاد بیانی سامنے آتی ہے کہ ابھی جس شخص کے متعلق انھوں نے نہایت حقارت سے کہا کہ کیا یہی ہے وہ جسے اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے؟ تو ابھی اس کی شخصیت کی تاثیر اور اس کے دلائل کی قوت کے بے پناہ ہونے کا اپنے منہ سے اعتراف کر رہے ہیں۔ اس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ اسلام کی دعوت سے کس قدر مرعوب اور بوکھلائے ہوئے تھے کہ مذاق بھی اڑاتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور برتری کا احساس ان پر اس قدر حاوی بھی تھا کہ بلا ارادہ ان کے منہ سے وہ باتیں نکلوا دیتا تھا جو وہ ہر گز کہنا نہیں چاہتے تھے۔ 5۔ وَ سَوْفَ يَعْلَمُوْنَ حِيْنَ يَرَوْنَ الْعَذَابَ....: یہ ان کے لیے حق کو گمراہی کہنے پر اللہ تعالیٰ کی طر ف سے سخت وعید ہے۔