سورة الفرقان - آیت 32

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً ۚ كَذَٰلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ ۖ وَرَتَّلْنَاهُ تَرْتِيلًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور اہل کفر کہتے ہیں کہ اس پر پورا قرآن ایک ہی بار (١٤) کیوں نہیں اتار دیا گیا اس طرح بتدریج اس لیے اتارا گیا تاکہ ہم اس کے ذریعہ آپ کے دل کو تقویت پہنچائیں اور اسے ہم نے آپ کو تھوڑا تھوڑا پڑھ کر سنایا ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ....: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے منکروں کا پانچواں اعتراض ہے جو بالکل ہی بے کار ہے۔ اعتراض یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سارا قرآن ایک ہی دفعہ کیوں نازل نہیں کیا گیا؟ یہ تھوڑا تھوڑا کر کے جو آ رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوچ سوچ کر اسے تصنیف کر لیتے ہیں اور یہ انسانی کلام ہے۔ جواب اس کا یہ ہے کہ ہاں، اسے ایسے ہی تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا گیا ہے، کیونکہ اس میں بہت سی حکمتیں ہیں۔ اعتراض بے کار اس لیے ہے کہ قرآن کا دعویٰ ہے کہ چونکہ یہ اللہ کا کلام ہے، اس لیے ساری کائنات مل کر بھی اس کی ایک سورت کی مثل نہیں بنا سکتی۔ اس سے پہلے قرآن کا جو حصہ نازل ہوا ہے اس کی مثل تو یہ لوگ لا نہیں سکے، اگر پورا قرآن اکٹھا نازل ہو جائے تو اس کی مثل کیسے پیش کریں گے۔ پھر ایسا مطالبہ کیوں؟ 2۔ یہاں بھی اگر ’’ وَقَالُوْا ‘‘ (اور انھوں نے کہا) کہہ دیا جاتا تو کافی تھا، مگر ’’ وَ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ‘‘ اس لیے فرمایا کہ ان لوگوں نے جو یہ بات کی ہے اس کی وجہ اس مطالبے کا معقول ہونا نہیں بلکہ اس کا باعث صرف اور صرف کفر ہے، جب کوئی شخص انکار پر تل ہی جائے تو وہ ایسی ہی بے تکی ہانکا کرتا ہے۔ كَذٰلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهٖ فُؤَادَكَ : یعنی اس طرح تھوڑا تھوڑا نازل کرنے میں بہت سے عظیم فائدے ہیں : (1) ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس طرح ہم آپ کے دل کو مضبوط اور قائم رکھتے ہیں، اس طرح کہ جب مشکلات کا ہجوم ہوتا ہے، کفار کوئی اعتراض کرتے ہیں، یا کوئی مسئلہ پیش آتا ہے تو ہم وحی کے ذریعے سے اس کا حل بتا دیتے ہیں، اس طرح بار بار وحی کا نزول ہوتا ہے، جبریل علیہ السلام بار بار آپ کے پاس آتے ہیں، تو اس احساس سے آپ کی ڈھارس بندھ جاتی ہے، حوصلہ بڑھ جاتا ہے اور دل مضبوط ہو جاتا ہے کہ مالک ہمارے حال سے غافل نہیں، مسلسل نظر رکھے ہوئے ہے اور ساتھ ساتھ رہنمائی فرما رہا ہے اور اپنے سب سے مقرب فرشتے کو ہمارے پاس بھیج رہا ہے۔ اگر جبریل علیہ السلام ایک ہی دفعہ پورا قرآن لا کر فارغ ہو جاتے تو بار بار پیش آنے والی مشکلات میں دل کو حوصلہ کیسے ملتا اور اسے وہ لذت و قوت کیسے حاصل ہوتی جو اس احساس سے حاصل ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قاصد اس کی طرف سے اس کا پیغام لے کر آیا ہے: وداع و وصل جدا گانہ لذتے دارد ہزار بار برو، صد ہزار بار بیا ’’وداع و وصل الگ الگ لذت رکھتے ہیں، تو ہزار بار جا اور سو ہزار بار آ۔‘‘ (2) ایک وقت میں چند آیات اترنے سے ان کا سمجھنا آسان ہوتا تھا، موقع کی مناسبت سے ان کا مفہوم زیادہ متعین اور واضح ہو جاتا تھا، یہ امکان ختم ہو جاتا تھا کہ ہر شخص محض لفظوں کو لے کر ان کا جو مفہوم چاہے نکالتا پھرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے عمل میں آ کر ان آیات کی عملی تصویر بھی سامنے آ جاتی تھی۔ ساری کتاب اکٹھی اترنے میں یہ بات نہ تھی۔ (3) اس طرح قرآنِ مجید اترنے میں احکام تدریج کے ساتھ اترے، جس سے امت کے لیے تخفیف ہوئی، اگر ایک ہی وقت میں چوری، ڈاکے، قتل، شراب، بہتان، زنا، غرض ہر گناہ کی حد بیان کر دی جاتی تو اس پر عمل نہایت مشکل ہوتا۔ (4) مصلحتِ وقت کے لحاظ سے کئی احکام کچھ مدت تک کے لیے تھے، اس کے بعد انھیں منسوخ ہونا تھا، لہٰذا پوری کتاب نازل ہونے کی صورت میں یہ ممکن نہ تھا۔ (5) لوگوں کے سوالات کے حل اور کفار کے اعتراضات کے جواب کے لیے بار بار آیات کے نزول سے جو تسلی و تشفی ہوتی تھی وہ بیک وقت قرآن نازل ہونے سے کبھی نہ ہو سکتی تھی۔ (6) اہلِ عرب اُمّی لوگ تھے، جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے، ان کے لیے چند آیات کو حفظ کرنا آسان تھا، جو ہر موقع پر اترتیں۔ پورا قرآن اترنے میں یہ بات نہ تھی۔ اس طرح قرآن سینوں میں محفوظ ہو گیا، کاغذ کا محتاج نہ رہا۔ لکھی ہوئی پوری کتاب مسلسل یاد کرنے میں سستی ہو سکتی تھی، جس سے صرف لکھی ہوئی کتاب پر انحصار ہو جاتا، نتیجتاً قرآن بھی پہلی کتابوں کی طرح غیر محفوظ ہو جاتا۔ (7) چند آیات اترنے سے قرآن کا معجز اور بے مثال کتاب ثابت ہونا زیادہ واضح ہوتا تھا، جب بھی چند آیات اترتیں تو کفار کا ان کے جواب سے قاصر رہنا نمایاں ہوتا۔ اگر پورا قرآن ایک وقت میں اترتا تو اس کا اعجاز اتنا نمایاں نہ ہوتا۔ (8) دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿وَ قُرْاٰنًا فَرَقْنٰهُ لِتَقْرَاَهٗ عَلَى النَّاسِ عَلٰى مُكْثٍ وَّ نَزَّلْنٰهُ تَنْزِيْلًا﴾ [بني إسرائیل : ۱۰۶ ] ’’اور عظیم قرآن، ہم نے اس کو جدا جدا کر کے (نازل) کیا، تاکہ تو اسے لوگوں پر ٹھہر ٹھہر کر پڑھے اور ہم نے اسے نازل کیا، (تھوڑا تھوڑا) نازل کرنا۔‘‘ اس قرآن کی مثال بارش کی طرح ہے، بارش جب بھی نازل ہوتی ہے مردہ زمین میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور یہ فائدہ تبھی ہوتا ہے جب بارش وقتاً فوقتاً نازل ہو، نہ کہ ایک ہی مرتبہ ساری بارش ہو جائے۔ ایک مثال اس کی یہ ہے کہ کوئی استاد اپنے شاگرد کو ایک ہی دن میں ساری کتاب پڑھ کر سنا دے۔ وَ رَتَّلْنٰهُ تَرْتِيْلًا:’’تَرْتِيْلًا‘‘کا اصل’’تَرْتِيْلُ الْأَسْنَانِ‘‘سےہے، ’’دانتوں کے درمیان کچھ فاصلہ ہونا‘‘ جیسے بابونہ کے پھول کی پتیاں ہوں، ایسے دانتوں کو ’’ ثَغْرٌ مُرتَّلٌ‘‘ کہتے ہیں۔ یعنی اسی طرح قرآن ٹھہر ٹھہر کر تیئیس (۲۳) برس میں نازل ہوا۔