سورة الفرقان - آیت 25

وَيَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَاءُ بِالْغَمَامِ وَنُزِّلَ الْمَلَائِكَةُ تَنزِيلًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور جس دن آسمان (١١) پھٹ کر ایک بادل نمودار ہوگا اور اگر وہ در گروہ فرشتے اتارے جائیں گے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ يَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَآءُ بِالْغَمَامِ....: ’’ يَوْمَ‘‘پر نصب محذوف ’’اُذْكُرْ‘‘ کی وجہ سے ہے، یعنی اس دن کو یاد کرو۔ ’’تَشَقَّقُ ‘‘ اصل میں ’’تَتَشَقَّقُ‘‘ہے، تخفیف کے لیے ایک تاء حذف کر دی ہے۔ ’’آسمان بادل کے ساتھ پھٹ جائے گا‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ آسمان پھٹ کر اس سے بادل نکلے گا، جیسا کہ کہا جاتا ہے : ’’ تَشَقَّقَتِ الْأَرْضُ بِالنَّبَاتِ ‘‘ ’’زمین نبات کے ساتھ پھٹی‘‘ یعنی زمین پھٹ کر اس میں سے نبات نکلی۔ یعنی اس دن کو یاد کرو جب آسمان پھٹ کر اس میں سے سائبانوں کی صورت ایک بادل نکلے گا، جس میں فرشتے جماعتوں کی صورت میں لگا تار میدانِ محشر میں اتارے جائیں گے، جو زمین پر ہو گا۔ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کی ہولناکی اور اس میں واقع ہونے والے عظیم معاملات کا ذکر فرما رہے ہیں، جن میں سے آسمان کا پھٹنا اور بادلوں کے ساتھ اس کا کھل جانا بھی ہے، جو نور کے عظیم سائبانوں کی صورت میں ہوں گے۔ پھر فرشتے اتریں گے اور میدانِ محشر میں تمام انسانوں کو گھیر لیں گے، پھر اللہ اپنے بندوں میں فیصلے کے لیے تشریف لائے گا۔ مجاہد نے فرمایا، یہ اسی طرح ہو گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿هَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّا اَنْ يَّاْتِيَهُمُ اللّٰهُ فِيْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَ الْمَلٰٓىِٕكَةُ وَ قُضِيَ الْاَمْرُ وَ اِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ﴾ [البقرۃ : ۲۱۰ ] ’’وہ اس کے سوا کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں کہ ان کے پاس اللہ بادل کے سائبانوں میں آجائے اور فرشتے بھی اور کام تمام کر دیا جائے اور سب کام اللہ ہی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں۔‘‘ اس دن کی کچھ کیفیت ان آیات میں بیان ہوئی ہے، فرمایا: ﴿فَاِذَا نُفِخَ فِي الصُّوْرِ نَفْخَةٌ وَّاحِدَةٌ (13) وَّ حُمِلَتِ الْاَرْضُ وَ الْجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّةً وَّاحِدَةً (14) فَيَوْمَىِٕذٍ وَّقَعَتِ الْوَاقِعَةُ (15) وَ انْشَقَّتِ السَّمَآءُ فَهِيَ يَوْمَىِٕذٍ وَّاهِيَةٌ (16) وَّ الْمَلَكُ عَلٰى اَرْجَآىِٕهَا وَ يَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَىِٕذٍ ثَمٰنِيَةٌ (17) يَوْمَىِٕذٍ تُعْرَضُوْنَ لَا تَخْفٰى مِنْكُمْ خَافِيَةٌ﴾ [الحاقۃ : ۱۳ تا ۱۸ ] ’’پس جب صور میں پھونکا جائے گا، ایک بار پھونکنا۔ اور زمین اور پہاڑوں کو اٹھایا جائے گا، پس دونوں ٹکرا دیے جائیں گے، ایک بار ٹکرا دینا۔ تو اس دن ہونے والی ہو جائے گی۔ اور آسمان پھٹ جائے گا، پس وہ اس دن کمزور ہو گا۔ اور فرشتے اس کے کناروں پر ہوں گے اور تیرے رب کا عرش اس دن آٹھ (فرشتے) اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ اس دن تم پیش کیے جاؤ گے، تمھاری کوئی چھپی ہوئی بات چھپی نہیں رہے گی۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَ نُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِي الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰهُ ثُمَّ نُفِخَ فِيْهِ اُخْرٰى فَاِذَا هُمْ قِيَامٌ يَّنْظُرُوْنَ (68) وَ اَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّهَا وَ وُضِعَ الْكِتٰبُ وَ جِايْٓءَ بِالنَّبِيّٖنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ قُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْحَقِّ وَ هُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ (69) وَ وُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَا يَفْعَلُوْنَ﴾ [ الزمر : ۶۸ تا ۷۰ ] ’’اور صور میں پھونکا جائے گا تو جو لوگ آسمانوں میں اور جو زمین میں ہوں گے، مر کر گر جائیں گے مگرجسے اللہ نے چاہا، پھر اس میں دوسری دفعہ پھونکا جائے گا تو اچانک وہ کھڑے دیکھ رہے ہوں گے۔ اور زمین اپنے رب کے نور کے ساتھ روشن ہو جائے گی اور لکھا ہوا (سامنے) رکھا جائے گا اور نبی اور گواہ لائے جائیں گے اور ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا ۔ اور ہر شخص کو پورا پورا دیا جائے گا جو اس نے کیا اور وہ زیادہ جاننے والا ہے جو کچھ وہ کر رہے ہیں۔‘‘ اور فرمایا: ﴿كَلَّا اِذَا دُكَّتِ الْاَرْضُ دَكًّا دَكًّا (21) وَّ جَآءَ رَبُّكَ وَ الْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا (22) وَ جِايْٓءَ يَوْمَىِٕذٍۭ بِجَهَنَّمَ١ۙ۬ يَوْمَىِٕذٍ يَّتَذَكَّرُ الْاِنْسَانُ وَ اَنّٰى لَهُ الذِّكْرٰى﴾ [الفجر : ۲۱ تا ۲۳ ] ’’ہر گز نہیں، جب زمین کوٹ کوٹ کر ریزہ ریزہ کر دی جائے گی۔ اور تیرا رب آئے گا اور فرشتے جو صف در صف ہوں گے۔ اور اس دن جہنم کو لایا جائے گا، اس دن انسان نصیحت حاصل کرے گا اور ( اس وقت) اس کے لیے نصیحت کہاں۔‘‘ اتنی صریح آیات کے باوجود کئی بدنصیب قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے زمین پر نزول فرمانے کے منکر ہیں اور ایسی تاویلیں کرتے ہیں جو انکار سے بھی بدتر ہیں۔ مزید دیکھیے سورۂ بقرہ (۲۱۰)، فجر (۲۱ تا ۲۳) اور حاقہ (۱۶، ۱۷) کی تفسیر۔