وَقَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْنَا الْمَلَائِكَةُ أَوْ نَرَىٰ رَبَّنَا ۗ لَقَدِ اسْتَكْبَرُوا فِي أَنفُسِهِمْ وَعَتَوْا عُتُوًّا كَبِيرًا
اور جو لوگ ہماری ملاقات کا یقین (٩) نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس فرشتے کیوں نہیں بھیج دیئے گئے (جو محمد کی نبوت کی گواہی دیتے) یا ہم اپنے رب کو کیوں نہیں دیکھ لیتے ہیں، انہوں نے اپنے دلوں میں اپنے آپ کو بڑا سمجھ لیا ہے اور بڑی سرکشی پر تل گئے ہیں۔
1۔ وَ قَالَ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا....: یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے منکروں کا چوتھا اعتراض ہے، اللہ تعالیٰ نے ’’وَقَالُوْا‘‘ (اور انھوں نے کہا) یا ’’وَ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا‘‘ ( اور ان لوگوں نے کہا جنھوں نے کفر کیا) کہنے کے بجائے فرمایا : ﴿وَ قَالَ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا ﴾ (اور ان لوگوں نے کہا جو ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے) یعنی انھیں اتنی گستاخی کی جرأت اس لیے ہوئی کہ وہ ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے۔ یقین تو دور، اگر انھیں قیامت کی اور ہمارے سامنے پیش ہونے کی امید بھی ہوتی تو اتنی بڑی بات ان کے منہ سے نہ نکلتی۔ 2۔ منکرین نے کہا کہ (اس نبی پر فرشتہ وحی لے کر اترتا ہے تو) ہم پر فرشتے کیوں نازل نہیں کیے گئے، یا ایسا کیوں نہیں ہوا کہ ہم اپنے رب کو (اپنی آنکھوں سے) دیکھ لیتے؟ یہ ایسی بات ہے کہ کسی انسان کا حق نہیں کہ زبان پر لانے کی جرأت کرے، کیونکہ یہ اس ذات پاک پر اعتراض ہے جس کی عظمت کی کوئی حد ہے نہ کوئی اس کی حکمتیں معلوم کر سکتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے قسم کا مفہوم رکھنے والے الفاظ ’’ لَقَدْ ‘‘ کے ساتھ فرمایا کہ مجھے قسم ہے کہ یہ لوگ اپنے دلوں میں بہت بڑے بن گئے اور انھوں نے ایسی سرکشی اختیار کی جو بہت بڑی سرکشی ہے۔ حالانکہ نہ حقیقت میں انھیں کوئی بڑائی حاصل ہے نہ لوگوں کی نگاہ میں۔ آیت کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایسا کیوں نہیں ہوا کہ اس نبی کے ساتھ فرشتے اترتے، یا خود رب تعالیٰ سامنے آ کر اس کی تصدیق کرتا۔ گویا ان کے لیے نبی کے واضح معجزات خصوصاً قرآن کی کوئی حیثیت نہیں، جس کی ایک سورت کی مثل وہ نہیں لا سکے۔ 3۔ کفار کا یہ اعتراض اللہ تعالیٰ نے دوسرے کئی مقامات پر بھی ذکر فرمایا ہے۔ چنانچہ سورۂ انعام میں فرمایا: ﴿وَ اِذَا جَآءَتْهُمْ اٰيَةٌ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ حَتّٰى نُؤْتٰى مِثْلَ مَا اُوْتِيَ رُسُلُ اللّٰهِ اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ سَيُصِيْبُ الَّذِيْنَ اَجْرَمُوْا صَغَارٌ عِنْدَ اللّٰهِ وَ عَذَابٌ شَدِيْدٌۢ بِمَا كَانُوْا يَمْكُرُوْنَ﴾ [الأنعام : ۱۲۴ ] ’’اور جب ان کے پاس کوئی نشانی آتی ہے تو کہتے ہیں ہم ہر گز ایمان نہیں لائیں گے، یہاں تک کہ ہمیں اس جیسا دیا جائے جو اللہ کے رسولوں کو دیا گیا، اللہ زیادہ جاننے والا ہے جہاں وہ اپنی رسالت رکھتا ہے۔ عنقریب ان لوگوں کو جنھوں نے جرم کیے، اللہ کے ہاں بڑی ذلت پہنچے گی اور بہت سخت عذاب، اس وجہ سے کہ وہ فریب کیا کرتے تھے۔‘‘ اور سورۂ بنی اسرائیل کی آیات (۹۰ تا ۹۳) میں ان مطالبات کا ذکر ہے جو انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی شرط کے طور پر پیش کیے تھے، ان میں سے ایک مطالبہ یہ تھا: ﴿اَوْ تَاْتِيَ بِاللّٰهِ وَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ قَبِيْلًا﴾ [بني إسرائیل : ۹۲ ] ’’یا تو اللہ اور فرشتوں کو سامنے لے آئے۔‘‘ 4۔ اللہ تعالیٰ نے اسے بہت بڑا تکبر اور بہت بڑی سرکشی اس لیے قرار دیا کہ انھوں نے اپنے ہر شخص کے لیے نبی کا مرتبہ ملنے کا مطالبہ کیا جو فرشتے کے نزول کی وجہ سے اسے حاصل ہوتا ہے۔ (دیکھیے مدثر : ۵۲، ۵۳) پھر یہیں تک نہیں رہے، بلکہ کئی فرشتوں کے نزول کا مطالبہ کیا جو ان کے پاس اللہ کا پیغام لے کر آئیں۔ اس سے بھی بڑھے تو رب تعالیٰ کو دیکھنے کا مطالبہ کر دیا۔ گویا ان چیزوں کا مطالبہ کر دیا جو نبیوں کو بھی عطا نہیں ہوئیں۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا سوال تو موسیٰ علیہ السلام نے بھی کیا تھا، اسے تکبر کیوں نہیں کہا گیا؟ جواب یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے دیدار کا مطالبہ ایمان کی شرط کے طور پر نہیں کیا تھا بلکہ شوق کے تقاضے سے کیا تھا۔