وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ فَيَقُولُ أَأَنتُمْ أَضْلَلْتُمْ عِبَادِي هَٰؤُلَاءِ أَمْ هُمْ ضَلُّوا السَّبِيلَ
اور جس دن (آپ کا رب) انہیں اور ان معبودوں کو جمع (٧) کرے گا جن کی وہ اللہ کے سوا عبادت کرتے تھے، تو وہ (ان معبودوں سے) پوچھے گا کیا تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا تھا، یا یہ خود ہی راہ بھٹک گئے تھے۔
1۔ وَ يَوْمَ يَحْشُرُهُمْ وَ مَا يَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ....: قیامت کے دن اللہ تعالیٰ غیر اللہ کی پرستش کرنے والوں کو اور ان سب کو اکٹھا کرے گا جن کی وہ پرستش کرتے رہے تھے۔ ان میں فرشتے بھی ہوں گے، انبیاء بھی، جیسے عیسیٰ اور عزیر علیھما السلام اور اللہ کے کئی دوسرے نیک بندے بھی، حیوانات بھی ہوں گے، جیسے گائے، سانپ اور بندر وغیرہ، نباتات بھی ہوں گے، جیسے پیپل وغیرہ اور جمادات بھی ہوں گے، جیسے بت وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ بے شعور اور بے جان چیزوں کو بھی شعور اور بولنے کی قوت عطا فرمائے گا اور ان سب سے پوچھے گا کہ کیا تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا، یا یہ خود ہی سیدھے راستے سے بھٹک گئے تھے؟ 2۔ اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا پہلے ہی علم ہے، اس سوال سے مقصود ایک تو غیر اللہ کی پرستش کرنے والوں کو لاجواب اور ذلیل و رسوا کرنا ہو گا، دوسرا ان کی پاک باز ہستیوں کی زبانی شرک سے بے زاری کا اعلان ہو گا۔ 3۔ ’’ وَ مَا يَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ‘‘ میں لفظ ’’ مَا ‘‘ استعمال ہوا ہے، جو عموماً غیر عاقل چیزوں کے لیے آتا ہے، حالانکہ وہ انبیاء و اولیاء کی بھی پرستش کرتے تھے۔ شاید ایسا اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ان کی حیثیت ظاہر کرنے کے لیے کیا گیا ہے، یا اس لیے کہ ’’ مَا ‘‘ عاقل اور غیر عاقل دونوں کے لیے آتا ہے، اگرچہ اکثر غیر عاقل چیزوں کے لیے آتا ہے۔ 4۔ یہ مضمون قرآن مجید میں کئی مقامات پر آیا ہے، فرشتوں سے سوال کے لیے دیکھیے سورۂ سبا (۴۰، ۴۱) اور مسیح علیہ السلام سے سوال کے لیے دیکھیے سورۂ مائدہ (۱۱۶)۔