رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ ۙ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ
جنہیں کوئی تجارت اور کوئی خریدو فروخت اللہ کی یاد سے اور نماز قائم کرنے سے اور کوۃ دینے سے غافل نہیں کرتی ہے وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جب (مارے دہشت کے) لوگوں کے دل اور ان کی آنکھیں الٹ جائیں گی۔
1۔ رِجَالٌ لَّا تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَيْعٌ....: ’’ رِجَالٌ ‘‘ پر تنوین تفخیم کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ’’بڑی شان والے مرد‘‘ کیا گیا ہے۔ یہاں ایک سوال ہے کہ ’’تجارت‘‘ کے بعد ’’بیع‘‘ کو ذکر کرنے کی کیا ضرورت ہے، جب کہ بیع بھی تجارت ہی ہے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ تجارت ایک وسیع عمل ہے، جس میں مختلف اشیاء خریدنے کے لیے سفر کرنا، انھیں مناسب مقام سے مناسب وقت پر مناسب قیمت کے ساتھ خریدنا، انھیں محفوظ کرکے رکھنا، پھر بیچنے کے لیے مناسب موقع کی تلاش میں رہنا، اس کے لیے دکان پر بیٹھنا، گاہک کا انتظار کرنا اور مناسب وقت پر فروخت کر دینا سب کچھ شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمانے کے بعد کہ ان عظیم مردوں کو اللہ کے ذکر اور اقامتِ صلاۃ اور ادائے زکوٰۃ سے تجارت میں درکار کوئی عمل غافل نہیں کرتا، تجارت کے تمام کاموں میں سے خاص اس کام کا ذکر فرمایا جو تجارت کی ساری محنت کا نتیجہ ہے اور وہ ہے بیع، یہ لفظ بیچنے اور خریدنے دونوں پر بولا جاتا ہے، یعنی اللہ کے ان بندوں کو تجارت میں درکار کوئی کام اللہ کے ذکر سے غافل نہیں کرتا، حتیٰ کہ خرید و فروخت کا عمل، جو تجارت کی ساری محنت کا نتیجہ ہے اور جس سے نفع حاصل ہوتا ہے، وہ بھی انھیں اللہ کے ذکر سے نہیں روکتا۔ اذان ہونے پر خواہ کوئی چیز بک رہی ہو یا خریدی جا رہی ہو اور خواہ کتنا نفع حاصل ہو رہا ہو وہ دنیا کے اس نفع کو لات مار کر اللہ کے گھر میں حاضر ہو جاتے ہیں۔ 2۔ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ : اللہ کے ذکر سے مراد دل میں اسے یاد رکھنا اور زبان سے اس کا ذکر دونوں مراد ہیں، یعنی وہ تجارت کے کسی موقع پر حتیٰ کہ خرید و فروخت کے وقت بھی اللہ تعالیٰ کو نہیں بھولتے، نہ کسی سودے میں ایسا کام کرتے ہیں جس سے اس نے منع فرما دیا ہے اور ان کی زبان پر ہر وقت اللہ کا ذکر ہی رہتا ہے۔ وہ بات بات پر الحمد للہ، سبحان اللہ، ماشاء اللہ وغیرہ کہتے ہیں اور خاموشی کی حالت میں بھی ان کی زبان اللہ کے ذکر سے تر رہتی ہے، وہ اس حکم پر کاربند رہتے ہیں: ((لَا يَزَالُ لِسَانُكَ رَطْبًا مِّنْ ذِكْرِ اللّٰهِ )) [ترمذي، الدعوات، باب ما جاء في فضل الذکر : ۳۳۷۵ ] ’’تیری زبان ہمیشہ اللہ کے ذکر سے تر رہے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کے اس حکم: ﴿يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِيْرًا﴾ [الأحزاب : ۴۱ ] ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ کو یاد کرو، بہت یاد کرنا۔‘‘ 3۔ وَ اِقَامِ الصَّلٰوةِ وَ اِيْتَآءِ الزَّكٰوةِ: نماز کی اقامت میں اسے وقت پر ادا کرنا اور اس کے تمام ارکان کو صحیح طریقے سے ادا کرنا سب کچھ شامل ہے، یعنی کوئی تجارت یا خرید و فروخت اللہ کے ذکر اور اقامت صلاۃ اور ادائے زکوٰۃ میں ان کے لیے غفلت کا باعث نہیں بنتی۔ 4۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اسلام کی تعلیم یہ نہیں ہے کہ دنیا کا کاروبار چھوڑ کر اللہ اللہ کرتے رہو، یہ تو رہبانیت ہے جس کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے نہیں دی۔ اللہ کے تمام جلیل القدر پیغمبر محنت کے ساتھ کمائی کرتے تھے، آدم علیہ السلام مویشی پالنے، کھیتی باڑی، صنعت و حرفت اور ضرورت کے سارے کام خود کرتے تھے۔ زکریا علیہ السلام نجار تھے، داؤد علیہ السلام زرہیں بناتے تھے۔ تمام پیغمبروں نے بکریاں چرائی ہیں، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے پہلے اجرت پر بکریاں چرائی ہیں، تجارت بھی کی ہے، آخر میں اللہ تعالیٰ نے آپ کا رزق آپ کے نیزے کے سائے تلے رکھ دیا تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا بھی یہی حال تھا، کوئی مویشی پالتا تھا، کوئی کاشت کار تھا، کوئی صنعت کار، کوئی تجارت کرتا تھا، کوئی مزدوری، البتہ جہادمیں سبھی شامل تھے، جو رزق کا سب سے باعزت ذریعہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایتائے زکوٰۃ (زکوٰۃ دینے) کے حکم میں بھی کسب حلال کی ترغیب ہے کہ مال نہیں کمائے گا تو زکوٰۃ کس سے دے گا۔ اسی لیے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صدقے کی اپیل کرتے تو بعض صحابہ بوجھ اٹھا کر اور بعض رات بھر ڈول کھینچ کر جو کچھ کماتے پیش کر دیتے۔ دیکھیے سورۂ توبہ کی آیت (۷۹) کی تفسیر۔ امتِ مسلمہ کی بدنصیبی کا آغاز اس دن سے ہوا جب ان لوگوں کو اولیاء اللہ قرار دے دیا گیا جنھوں نے جہاد کرنا تو دور، حلال کمانا بھی چھوڑ دیا اور اللہ پر توکّل کے نام پر لوگوں کے لقموں پر پلنا شروع کر دیا۔ ان کے ترک دنیا اور خود ساختہ زہد سے متاثر ہو کر لوگ ان پر اپنا مال نچھاور کرنے لگے کہ ان بزرگوں کے طفیل ہم بھی کچھ کیے کرائے بغیر بخشے جائیں گے۔ جب یہ حضرات لوگوں کی نظروں میں نیکی کا معیار بن گئے تو کفار کو مسلمانوں پر چڑھ دوڑنے کا موقع مل گیا۔ مسلمانوں کی نگاہوں میں ان اعلیٰ ترین لوگوں نے تجارت، صنعت، زراعت، حرب و ضرب سب کچھ چھوڑا تو عوام اور حکمرانوں کی نظر میں بھی یہ کام دنیا پرستی ٹھہرے۔ نتیجہ وہ غلامی ہے جس کا عذاب امتِ مسلمہ جھیل رہی ہے۔ جب تک یہ امت روزانہ ہزار ہزار رکعت پڑھنے والے، دنیا ترک کرکے مساجد کو چھوڑ کر خانقاہوں کو آباد کرنے والے، کسی معشوق یا شیخ کے تصور میں عمر گزارنے والے، دوسروں کے ٹکڑوں پر پلنے والے عزت مآب راہبوں کی حقیقت کو نہیں سمجھے گی اور خیر القرون کے صحابہ و تابعین کے عمل کی طرف نہیں پلٹے گی، تو کوئی طاقت انھیں ذلت و رسوائی سے نہیں نکال سکتی۔ 5۔ اللہ تعالیٰ کو مطلوب یہ ہے کہ اس کے بندے دنیا کے سب جائز کام کریں، مگر وہ کام ان کے لیے اس کی یاد اور اس کے احکام کی بجا آوری میں رکاوٹ نہ بنیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ’’كِتَابُ الْبُيُوْعِ، بَابُ التِّجَارَةِ فِي الْبَزِّ وَ غَيْرِهِ‘‘ (کپڑے وغیرہ کی تجارت کے باب) میں آیت: ﴿رِجَالٌ لَّا تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ ﴾ نقل فرمانے کے بعد جلیل القدر تابعی قتادہ کا قول نقل فرمایا ہے، جس میں انھوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا حال بیان فرمایا ہے، وہ فرماتے ہیں: ((كَانَ الْقَوْمُ يَتَبَايَعُوْنَ وَ يَتَّجِرُوْنَ وَلٰكِنَّهُمْ إِذَا نَابَهُمْ حَقٌّ مِنْ حُقُوْقِ اللّٰهِ لَمْ تُلْهِهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ حَتّٰہ يُؤَدُّوْهُ إِلَی اللّٰهِ)) [بخاري، بعد ح : ۲۰۵۹ ] ’’وہ لوگ خرید و فروخت کرتے اور تجارت کرتے تھے، لیکن جب ان کے سامنے اللہ کے حقوق میں سے کوئی حق آ جاتا تو کوئی تجارت یا کوئی خرید و فروخت انھیں اللہ کے اس حق کی ادائیگی سے غافل نہیں کرتی تھی۔‘‘ 6۔ یہاں ایک سوال ہے کہ اللہ کے گھروں میں تسبیح کرنے والوں میں سے یہاں صرف مردوں کا ذکر فرمایا، تو کیا عورتیں مسجد میں نہیں جا سکتیں؟ جواب اس کا یہ ہے کہ یہاں ان لوگوں کی مردانگی کا ذکر ہے جو تجارت اور خرید و فروخت چھوڑ کر مسجدوں میں جماعت کے ساتھ آ ملتے ہیں اور ظاہر ہے یہ کام مردوں کا ہے، عورتوں کا نہیں۔ (رازی) رہا عورتوں کا مسجد میں آنا تو یہ بات معروف ہے کہ وہ مسجد نبوی میں جماعت کے ساتھ شریک ہوتی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں مسجدوں میں آنے کی اجازت دی اور روکنے سے منع فرمایا۔ ابن عمر رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں : ’’عمر رضی اللہ عنہ کی ایک بیوی صبح اور عشاء کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ پڑھتی تھی (عمر رضی اللہ عنہ اسے ناپسند کرتے اور غیرت کھاتے تھے) اسے کسی نے کہا : ’’تم کیوں نکلتی ہو، جب کہ تمھیں معلوم ہے کہ عمر اسے ناپسند کرتے ہیں اور غیرت کھاتے ہیں؟‘‘ اس نے کہا : ’’انھیں کیا مانع ہے کہ مجھے (جانے سے) روک دیں؟‘‘ تو اس نے کہا، انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مانع ہے: ((لَا تَمْنَعُوْا إِمَاءَ اللّٰهِ مَسَاجِدَ اللّٰهِ )) [بخاري، الجمعۃ، باب : ۹۰۰] ’’اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے منع مت کرو۔‘‘ البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے گھر میں نماز پڑھنے کو افضل قرار دیا ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَا تَمْنَعُوْا نِسَاءَكُمُ الْمَسَاجِدَ وَ بُيُوْتُهُنَّ خَيْرٌ لَّهُنَّ )) [ أبوداؤد، الصلاۃ، باب ما جاء في خروج النساء إلی المسجد : ۵۶۷ ] ’’اپنی عورتوں کو مسجدوں سے مت روکو اور ان کے گھر ان کے لیے زیادہ اچھے ہیں۔‘‘ 7۔ يَخَافُوْنَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيْهِ الْقُلُوْبُ وَ الْاَبْصَارُ : یعنی ان مردوں کا اللہ کے گھروں میں ذکر و تسبیح کرنا اس دن کے خوف کی وجہ سے ہے جب دل اور آنکھیں الٹ جائیں گی، یعنی دل اور آنکھیں خوف اور گھبراہٹ کی شدت سے اپنی معمول کی جگہ چھوڑ دیں گی، جیسا کہ فرمایا: ﴿وَ اَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْاٰزِفَةِ اِذِ الْقُلُوْبُ لَدَى الْحَنَاجِرِ كٰظِمِيْنَ﴾ [المؤمن : ۱۸ ] ’’اور انھیں قریب آنے والی گھڑی سے ڈرا جب دل گلوں کے پاس غم سے بھرے ہوں گے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿اِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيْهِ الْاَبْصَارُ﴾ [إبراھیم : ۴۲ ] ’’وہ تو انھیں صرف اس دن کے لیے مہلت دے رہا ہے جس میں آنکھیں کھلی رہ جائیں گی۔‘‘