فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَن تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ
وہ چراغ ایسے گھروں (٢٤) میں ہے جن کے بارے میں اللہ کا حکم ہے کہ ان کی قدرو منزلت کی جائے اور ان میں صرف اسی کا نام لیا جائے، ان گھروں (یعنی مسجدوں) میں صبح و شام اس کی تسبیح ایسے لوگ پڑھتے رہتے ہیں۔
1۔ فِيْ بُيُوْتٍ اَذِنَ اللّٰهُ اَنْ تُرْفَعَ : ’’ بُيُوْتٍ ‘‘ میں تنوین تعظیم کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ’’ان عظیم گھروں میں‘‘ کیا گیا ہے۔ ’’ اَذِنَ‘‘ کا لفظ اجازت اور حکم دونوں معنوں میں آتا ہے، یہاں مراد حکم ہے، جیسا کہ فرمایا: ﴿وَ مَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِيُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِ﴾ [النساء : ۶۴ ] ’’اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی فرماں برداری کی جائے۔‘‘ 2۔ ’’ فِيْ بُيُوْتٍ‘‘جار مجرور کس کے متعلق ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ پچھلی آیت میں کئی الفاظ ہیں جن میں سے کسی کے بھی متعلق کر دیں تو معنی درست ہوتا ہے، مثلاً ’’ نُوْرٌ ، كَمِشْكٰوةٍ ، مِصْبَاحٌ ، اَلزُّجَاجَةُ ‘‘ اور ’’ يُوْقَدُ ‘‘ یعنی وہ نور ہدایت ایسے عظیم گھروں میں ملتا ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ ابن کثیر فرماتے ہیں : ’’جب اللہ تعالیٰ نے مومن کے دل کی اور اس میں موجود علم اور ہدایت کی مثال ایسے چراغ کے ساتھ دی جو شفاف فانوس میں ہے اور نہایت عمدہ تیل کے ساتھ روشن کیا جا رہا ہے، تو اس کی جگہ بیان فرمائی کہ وہ جگہ زمین کے تمام قطعوں میں سے اللہ تعالیٰ کو سب سے محبوب قطعہ اللہ کی مسجدیں ہیں، جن میں اس کی عبادت ہوتی ہے اور اس کی توحید کا اعلان ہوتا ہے۔‘‘ 3۔ ’’ اَنْ تُرْفَعَ ‘‘ کا لفظی معنی ہے ’’کہ وہ (گھر) بلند کیے جائیں ‘‘ مگر یہاں بلند کرنے سے مراد یہ نہیں کہ ان کی عمارت زیادہ سے زیادہ اونچی بنائی جائے، کیونکہ اگر یہ مطلب ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما انھیں کھجور کے تنوں اور ٹہنیوں سے نہ بناتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ نہ فرماتے: ((مَا أُمِرْتُ بِتَشْيِيْدِ الْمَسَاجِدِ )) [ أبوداؤد، الصلاۃ، باب في بناء المساجد : ۴۴۸، قال الألباني صحیح، عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنھما ] ’’مجھے مساجد کو اونچا بنانے یا چونا گچ بنانے کا حکم نہیں دیا گیا۔‘‘ اس سے مراد ان کی تعظیم و تکریم ہے۔ طبری نے معتبر سند کے ساتھ علی بن ابی طلحہ سے ابن عباس رضی اللہ عنھما کی تفسیر نقل فرمائی ہے : ’’ ﴿ فِيْ بُيُوْتٍ اَذِنَ اللّٰهُ اَنْ تُرْفَعَ ﴾ وَهِيَ الْمَسَاجِدُ تُكْرَمُ وَ نُهِيَ عَنِ اللَّغْوِ فِيْهَا ‘‘ [ طبري : ۲۶۳۳۶ ] ’’اس آیت میں ’’ بُيُوْتٍ ‘‘ سے مراد مساجد ہیں، ان کی تکریم و تعظیم کی جائے اور ان میں لغو کاموں سے منع کیا گیا۔‘‘ ابن عباس رضی اللہ عنھما کے اس قول سے معلوم ہوا کہ ’’ بُيُوْتٍ ‘‘ سے مراد مساجد ہیں اور انھیں بلند کرنے سے مراد ان کی تکریم اور ان میں لغو کاموں سے بچنا ہے۔ ’’رفع مساجد‘‘ یعنی مسجدوں کی تعظیم و تکریم میں انھیں ہر محلے میں بنانا، ان میں جھاڑو پھیرنا، انھیں نجاست اور گندگی سے پاک رکھنا، انھیں خوشبو دار رکھنا، تحیۃ المسجد پڑھے بغیر ان میں نہ بیٹھنا، ان میں تھوکنے سے، غلط اور شرکیہ اشعار پڑھنے سے، بے ہودہ باتوں اور شوروغل سے بچنا، گم شدہ چیز کا ان میں اعلان نہ کرنا اور ان میں خرید و فروخت نہ کرنا، سب کچھ شامل ہے۔ علاوہ ازیں حائضہ اور جنبی کو مسجد میں داخلے سے ممانعت، بدبودار چیز کھا کر مسجد میں آنے کی ممانعت، مسجد کو راستے کے طور پر استعمال کرنے کی ممانعت اور مساجد میں حدود اللہ قائم کرنے سے ممانعت بھی ان کی نظافت اور تکریم ہی کی وجہ سے ہے۔ ان میں داخل ہوتے وقت دایاں پاؤں اور نکلتے وقت بایاں پاؤں پہلے رکھنا ان کی تکریم کا حصہ ہے۔ اسی طرح ان میں داخل ہوتے وقت اللہ تعالیٰ سے رحمت کی درخواست اور شیطان مردود سے پناہ کی طلب اور نکلتے وقت اللہ کے فضل کی درخواست واضح علامت ہے کہ بندہ کسی عام جگہ میں داخل یا اس سے خارج نہیں ہو رہا، بلکہ ایک نہایت عظمت والے مقام میں داخل ہو رہا ہے، یا اس سے نکل رہا ہے۔ ان تمام باتوں کی تفصیل آیات و احادیث میں موجود ہے اور تھوڑی سے توجہ سے بآسانی دیکھی جا سکتی ہے۔ تفسیر ابن کثیر میں اس کا خاصا حصہ مذکور ہے۔ 4۔ وَ يُذْكَرَ فِيْهَا اسْمُهٗ : مساجد میں اللہ کا نام یاد کرنے میں فرض اور نفل سب نمازیں شامل ہیں، اسی طرح اس میں قرآن مجید کی تلاوت، اللہ کی تسبیح، اس کی حمد، لا الٰہ الا اللہ اور دوسرے تمام اذکار شامل ہیں۔ علم کا سیکھنا سکھانا، اس کا باہم مذاکرہ، اعتکاف اور دوسری تمام عبادات شامل ہیں جو مساجد میں ادا کی جاتی ہیں۔ 5۔ يُسَبِّحُ لَهٗ فِيْهَا بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ : ’’ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ ‘‘ کے لیے دیکھیے سورۂ اعراف کی آیت (۲۰۵) یعنی ان مساجد میں بڑی شان والے مرد خلوص کے ساتھ اللہ کے لیے صبح و شام تسبیح بیان کرتے ہیں۔ تسبیح میں اگرچہ سب اذکار آ جاتے ہیں اور عموماً اذکار روزانہ صبح و شام ہی کیے جاتے ہیں، مگر ترجمان القرآن ابن عباس رضی اللہ عنھما نے اس کی تفسیر فرض نماز کے ساتھ فرمائی ہے۔ چنانچہ طبری نے معتبر سند کے ساتھ علی بن ابی طلحہ کے طریق سے ابن عباس رضی اللہ عنھما کی تفسیر بیان فرمائی ہے، انھوں نے فرمایا : ’’ يُسَبِّحُ لَهٗ فِيْهَا بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ بڑی شان والے وہ مرد پہلے اور پچھلے پہر ان میں اللہ کے لیے نماز پڑھتے ہیں۔ ’’غُدُوٌّ‘‘ سے مراد صبح کی نماز ہے اور ’’آصَالٌ‘‘ سے مراد عصر کی نماز ہے۔ یہ دونوں نمازیں اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے فرض فرمائیں، اس لیے اس نے پسند فرمایا کہ ان نمازوں کا ذکر کرے اور ان کے ساتھ اپنی عبادت کا ذکر کرے۔‘‘ [ طبري : ۲۶۳۵۱ ] قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر بھی تسبیح بول کر نماز مراد لی گئی ہے، دیکھیے سورۂ طٰہٰ (۱۳۰)، سورۂ ق (۳۹، ۴۰) اور سورۂ طور (۴۹) بعض مفسرین نے ’’ الْاٰصَالِ‘‘ سے چاروں نمازیں مراد لی ہیں۔ بغوی نے فرمایا : ’’کیونکہ ’’ الْاٰصَالِ ‘‘ میں وہ چاروں آ جاتی ہیں۔‘‘ ’’صَيْلٌ‘‘ کا لفظ سورج ڈھلنے سے لے کر فجر سے پہلے تک بھی بولا جاتا ہے، اگرچہ الفاظ کے لحاظ سے یہ تفسیر درست ہے، تاہم شان نزول کو مدنظر رکھیں تو ابن عباس رضی اللہ عنھما کی تفسیر راجح ہے۔