وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ۚ إِن يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
اور تم میں جو مرد بغیر بیوی کے اور جو عورتیں بغیر شوہر کے ہوں ان کی شادی (٢٠) کردو، اور اپنے نیک ایماندار غلاموں اور لونڈیوں کی بھی شادی کردو، اگر وہ فقیر ہوں گے تو اللہ اپنے فضل سے انہیں مالدار بنا دے گا، اور اللہ بڑی کشادگی والا، خوب جاننے والا ہے۔
1۔ وَ اَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ: ’’ الْاَيَامٰى ‘‘ ’’آمَ يَئِيْمُ أَيْمًا‘‘ (بَاعَ يَبِيْعُ) سے ’’أَيِّمٌ‘‘ (بروزن فَیْعِلٌ، كَسَيِّدٍ )کی جمع ہے، یعنی وہ عورت جس کا خاوند نہ ہو، کنواری ہو یا بیوہ یا مطلقہ اور وہ مرد جس کی بیوی نہ ہو، کنوارا ہو یا ثیب۔ زمخشری کے مطابق ’’أَيَامٰي‘‘ کا وزن ’’أَفَاعِلُ‘‘ ہے، کیونکہ یہ ’’أَيِّمٌ‘‘ کی جمع ہے، جو ’’فَيْعِلٌ‘‘ کے وزن پر ہے اور ’’فَيْعِلٌ‘‘ کی جمع ’’فَعَالٰي‘‘ نہیں آتی۔ اس لیے ’’أَيَامٰي‘‘ کا اصل ’’ أَيَايِمُ‘‘ ہے، جس میں قلب کرکے میم کو یاء کی جگہ پہلے کر دیا گیا، کیونکہ الف کے بعد یاء پڑھنے میں ثقل ہے، پھر میم کو تخفیف کے لیے فتحہ دے دیا گیا اور یاء کو الف سے بدل کر ’’أَيَامٰي‘‘ کر دیا۔ ابن مالک اور کئی علماء کے مطابق یہ خلاف قیاس ’’ فَعَالٰي‘‘ کے وزن پر ہے، سیبویہ کے کلام کا ظاہر بھی یہی ہے۔ (التحریر والتنویر) 2۔ نگاہیں نیچی رکھنے اور شرم گاہوں کی حفاظت کرنے کے حکم کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ جنسی جبلت کو معطل کر دو اور ترک دنیا کرکے راہب اور جوگی بن جاؤ، کیونکہ یہ فطرت کا مقابلہ ہے اور جو شخص فطرت کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرے گا پادریوں اور ننوں (راہبات) کی طرح بری طرح شکست کھائے گا، بلکہ حکم دیا کہ اپنے مجرد مردوں اور عورتوں کا نکاح کرو اور حلال طریقے سے اپنی خواہش اور لذت کی تکمیل کرو، یہ تمھاری پاک دامنی اور نگاہ نیچی رکھنے کا ذریعہ ہے اور امت مسلمہ کی تعداد بڑھانے کا بھی۔ 3۔ ’’ الْاَيَامٰى مِنْكُمْ‘‘سے مراد مسلم آزاد مجرد مرد اور عورتیں ہیں، کیونکہ غلاموں کا ذکر بعد میں آ رہا ہے اور غیر مسلم ’’ مِنْكُمْ ‘‘ نہیں بلکہ ’’مِنْ غَيْرِكُمْ ‘‘ ہیں۔ رہی یہ بات کہ یہ حکم کس کو ہے؟ تو عورت کا نکاح اس کے اولیاء کی ذمہ داری ہے، ان کی اجازت کے بغیر عورت کو نکاح کی اجازت نہیں۔ اگر کسی عورت کا ولی نہ ہو یا وہ ولایت کا اہل نہ رہے کہ اس کا نکاح کرنے کے بجائے نکاح کی راہ میں کسی معقول وجہ کے بغیر رکاوٹ بنا رہے تو حاکم وقت اس کا ولی ہے اور اسے حکم ہے کہ اس کا نکاح کرے۔ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيْهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، فَإِنْ دَخَلَ بِهَا فَالْمَهْرُ لَهَا بِمَا أَصَابَ مِنْهَا فَإِنْ تَشَاجَرُوْا فَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لَا وَلِيَّ لَهُ )) [أبوداؤد، النکاح، باب في الولي : ۲۰۸۳ ] ’’جو عورت اپنے اولیاء کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو اس کا نکاح باطل ہے۔‘‘ تین دفعہ فرمایا، پھر فرمایا : ’’اگر شوہر اس عورت سے صحبت کر لے تو اسے مہر دینا پڑے گا، اس سے فائدہ حاصل کرنے کی وجہ سے اور اگر وہ اولیاء آپس میں جھگڑ پڑیں تو جس کا کوئی ولی نہ ہو سلطان اس کا ولی ہے۔‘‘ رہے مرد تو ان کا نکاح کسی ولی کی اجازت پر موقوف نہیں، مگر ظاہر ہے کہ بچے کے جوان ہونے پر اس کے والدین یا رشتہ دار جو اس کی کفالت کر رہے ہیں، اگر اس کے نکاح کی کوشش اور اس میں تعاون نہ کریں تو اس کے لیے نکاح بہت مشکل ہے، اس لیے انھیں حکم ہے کہ اپنے بچوں کا جوان ہونے پر جتنی جلدی ممکن ہو نکاح کر دیں۔ ’’ اَنْكِحُوْا ‘‘ (نکاح کر دو) کا لفظ عام ہونے کی وجہ سے اس کے مخاطب حکومت و عوام تمام مسلمان بھی ہیں کہ مردوں اور عورتوں کے نکاح میں وہ جس قدر بھی تعاون کر سکتے ہوں ان کا نکاح کروا دیں۔ جب دوسروں کا نکاح کروانے کا حکم ہے تو خود اپنا نکاح کروانا تو بدرجہ اولیٰ ضروری ہو گا۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتے تھے، جوان تھے اور کوئی چیز نہ پاتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا: ((يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ! مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَائَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَمَنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ)) [ بخاري، النکاح، باب من لم یستطع البائۃ فلیصم : ۵۰۶۶، ۵۰۶۵ ] ’’اے جوانو کی جماعت! تم میں سے جو نکاح کر سکتا ہو وہ نکاح کرلے، کیونکہ وہ نظر کو بہت نیچا کرنے والا اور شرم گاہ کو بہت محفوظ رکھنے والا ہے اور جو نکاح کا سامان نہ پائے وہ روزے کو لازم پکڑے، کیونکہ وہ اس کے لیے (شہوت) کچلنے کا باعث ہے۔‘‘ 4۔ وَ الصّٰلِحِيْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَ اِمَآىِٕكُمْ:’’ الصّٰلِحِيْنَ ‘‘سے مراد دین کی صلاحیت (نیکی) بھی ہو سکتی ہے، اس صورت میں غلام یا لونڈی میں سے صالح وہ ہو گا جو فاجر اور زانی نہ ہو۔ اس کے مالک کو اس کی نیکی کے انعام اور مزید نیکی کی ترغیب دلانے کے لیے اس کا نکاح کر دینا چاہیے۔ رہا زانی تو وہ کیونکہ صالح نہیں فاسد ہے، اس لیے اس کا نکاح جائز نہیں، جب تک توبہ کرکے صالح نہ بن جائے۔ گویا یہ سورت کے آغاز میں مذکور حکم ’’ اَلزَّانِيْ لَا يَنْكِحُ اِلَّا زَانِيَةً اَوْ مُشْرِكَةً وَّ الزَّانِيَةُ لَا يَنْكِحُهَا اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِكٌ وَ حُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ ‘‘ کی تائید ہے۔ غلاموں میں خاص طور پر یہ شرط لگانے کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اکثر یہ بیماری اس طبقے میں ہوتی ہے، کیونکہ وہ اس شرف سے محروم ہوتے ہیں جو معاشرے میں کسی آزاد مرد یا عورت کو اپنی عزت کی حفاظت پر مجبور کرتا ہے۔ (سعدی) اس لیے اہل علم نے یوسف علیہ السلام کے زنا سے بچنے کو عفت کا کمال قرار دیا ہے، کیونکہ دنیاوی لحاظ سے انھیں زنا سے روکنے والی کوئی چیز موجود نہیں تھی، حتیٰ کہ ان کے پاس حرّیت بھی نہیں تھی۔ (تفصیل سورۂ یوسف میں ملاحظہ فرمائیں) ’’ الصّٰلِحِيْنَ‘‘سے مراد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ لونڈی یا غلام جو نکاح کی صلاحیت رکھتے ہوں اور انھیں اس کی ضرورت ہو۔ اس کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ اگر غلام یا لونڈی کو نکاح کی حاجت نہ ہو تو مالک کو اس کے نکاح کا حکم نہیں اور ’’ الصّٰلِحِيْنَ ‘‘ کے دونوں معنی مراد لیے جائیں تو کچھ بعید نہیں۔ (سعدی) 5۔ اِنْ يَّكُوْنُوْا فُقَرَآءَ يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ : عام طور پر غربت کو مرد کے نکاح کی راہ میں رکاوٹ سمجھا جاتا ہے کہ جب اس کے پاس کچھ ہے ہی نہیں تو بیوی کو کہاں سے کھلائے گا، اس لیے غریب کو کوئی رشتہ نہیں دیتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس خیال کی تردید کی اور فرمایا کہ تم مجرد لوگوں کا نکاح کر دو، اگر وہ فقیر ہیں تو اللہ تعالیٰ انھیں غنی کر دے گا۔ اللہ تعالیٰ کے پاس غیب سے غنی کر دینے کا اختیار ہے اور اسباب کے لحاظ سے بھی بیوی آنے کے بعد وہ کمائی کے لیے زیادہ جدو جہد کرے گا۔ کھانا تو پہلے وہ خود بھی کھاتا ہے، اگر مزید کمائی نہ بھی کرے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ایک کا کھانا دو کے لیے کافی ہوتا ہے۔ [ دیکھیے، بخاری : ۵۳۹۲ ] پہلے یہ اکیلا کمائی کرتا تھا، بیوی آنے کے بعد اس کی کمائی کی استعداد دو گنا ہی نہیں بلکہ مشہور عام قول کے مطابق گیارہ گنا ہو جائے گی۔ بیوی اس کا ہاتھ بٹائے گی، ہو سکتا ہے کہ بیوی کو اللہ تعالیٰ نے کوئی ہنر عطا کر رکھا ہو، یا وہ بہتر مشورے دے کر خاوند کی بہترین مشیر ثابت ہو، یا بیوی کے رشتہ داروں کے تعاون سے حالت بدل جائے۔ علاوہ ازیں اولاد ہونے کے بعد عین ممکن ہے کہ وہ اتنی کمائی کریں کہ پورا کنبہ ہی اغنیاء میں شامل ہو جائے۔ اس کے برعکس کسی غنی کو لڑکی دے تو ہو سکتا ہے کسی آزمائش میں وہ فقیر ہو جائے۔ اللہ نے فرمایا: ﴿قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَآءُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَآءُ وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ (26) تُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَ تُوْلِجُ النَّهَارَ فِي الَّيْلِ وَ تُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَ تُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَ تَرْزُقُ مَنْ تَشَآءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ﴾ [ آل عمران : ۲۶، ۲۷ ] ’’کہہ دے اے اللہ! بادشاہی کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی دیتا ہے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لیتا ہے اور جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلیل کر دیتا ہے، تیرے ہی ہاتھ میں ہر بھلائی ہے، بے شک تو ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ تو رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور تو دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور تو زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور تو مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے اور تو جسے چاہے کسی حساب کے بغیر رزق دیتا ہے۔‘‘ یہ سب کچھ عام مشاہدے میں آتا رہتا ہے۔ دولت دھوپ چھاؤں کی طرح آج یہاں ہے تو کل وہاں، بلکہ دولت کا معنی ہی گھومنا ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صحابی کا نکاح بھی کر دیا تھا جس کے پاس ایک چادر کے سوا کچھ نہیں تھا، حتیٰ کہ لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں تھی۔ (دیکھیے بخاری : ۵۰۲۹) یہ خیال ہی نہیں فرمایا کہ یہ بیوی کو کہاں سے کھلائے گا۔ اس لیے اہل علم نے دولت مند بننے کے اسباب میں سے نکاح کو بھی ایک سبب قرار دیا ہے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا : ’’بعض لوگ ایک روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’فقیری میں بھی نکاح کیا کرو، اللہ تمھیں غنی کر دے گا۔‘‘ میری نگاہ سے تو یہ روایت نہیں گزری، نہ کسی قوی سند سے، نہ ضعیف سند سے اور نہ ہمیں اس مضمون کے لیے ایسی بے اصل روایت کی کوئی ضرورت ہے، کیونکہ قرآن کی یہ آیت اور (لوہے کی انگوٹھی تک نہ رکھنے والے سے نکاح والی) حدیث اس کے لیے کافی ہے۔ (وللہ الحمد)‘‘ ( ابن کثیر) ایسی ہی ایک روایت عام مشہور ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فقر کی شکایت لے کر آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’نکاح کر لو۔‘‘ اس نے نکاح کر لیا مگر غربت بدستور مسلط رہی، وہ پھر شکایت لے کر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر نکاح کا حکم دیا۔ اس نے دوسرا نکاح کر لیا، پھر بھی وہی حال رہا تو وہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر نکاح کا حکم دیا۔ تیسرے نکاح پر بھی غربت دور نہ ہوئی تو اس نے پھر آ کر شکایت کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چوتھے نکاح کا حکم دیا، اس نے اس پر عمل کیا تو اس کی غربت دور ہو گئی۔ میں نے یہ روایت بہت تلاش کی مگر کسی معتبر کتاب میں نہیں ملی اور نہ یہ روایت نقل کرنے والے کسی صاحب نے اس کا حوالہ دیا ہے۔ ایسی باتوں کا بے سروپا ہونا خود اس کے مضمون سے ظاہر ہوتا ہے۔ ایسے فقیر کو یکے بعد دیگرے چار بیویاں ملتے چلے جانے کی کوئی مثال مشکل ہی سے ملے گی۔ 6۔ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ : واؤ عطف سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا عطف پہلے جملے پر ہے جو ’’ يُغْنِيَهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ ‘‘ سے خود بخود سمجھ میں آنے کی وجہ سے حذف کر دیا گیا ہے اور یہ اختصار قرآن کی بلاغت کا اعجاز ہے۔ گویا محذوف جملے کو ظاہر کیا جائے تو عبارت یوں ہو گی : ’’ أَنْ يَّكُوْنُوْا فُقَرَآءَ يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهِ فَاللّٰهُ ذُوْ فَضْلٍ عَظِيْمٍ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ‘‘ یہاں ’’ وَاسِعٌ ‘‘ اور ’’عَلِيْمٌ‘‘ صفات لانے کی مناسبت یہ ہے کہ اللہ وسعت والا ہے، اس کے ہاں کوئی کمی نہیں، وہ جسے چاہے، خواہ وہ کتنا کنگال کیوں نہ ہو، اسے غنی کر دیتا ہے اور وہ سب کچھ جاننے والا ہے، اسے معلوم ہے کہ کسے غنی کرنا ہے اور کس طرح اور کن اسباب کے ذریعے سے غنی کرنا ہے۔ (بقاعی)