يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ وَمَن يَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ ۚ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَىٰ مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يُزَكِّي مَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
اے ایمان والو ! شیطان کے نقش قدم (١٢) پر نہ چلو، اور جو شیطان کے نقش قدم پر چلتا ہے تو وہ برائی اور بے حیائی کا ہی حکم دیتا ہے، اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی بھی گناہوں سے پاک نہ ہوتا، لیکن اللہ جسے چاہتا ہے پاک کرتا ہے اور اللہ خوب سننے والا، بڑا جاننے والا ہے۔
1۔ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ....: ’’ خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ ‘‘ كی وضاحت کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ کی آیت (۱۶۸) اور ’’ بِالْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ ‘‘ کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ نحل کی آیت (۹۰) پہلے فرمایا: ﴿لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ﴾ پھر ’’ الشَّيْطٰنِ ‘‘ کے لیے ضمیر لا کر ’’وَ مَنْ يَّتَّبِعْ خُطُوَاتِهِ‘‘ کہنے کے بجائے دوبارہ نام لے کر فرمایا: ﴿وَ مَنْ يَّتَّبِعْ خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ ﴾ مراد توجہ دلانا ہے کہ آدمی سوچے کہ میں کس کی پیروی کر رہا ہوں۔ 2۔ وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ....: اس آیت سے معلوم ہوا کہ کوئی بھی شخص کسی طرح بھی اپنے آپ کو پاک نہیں رکھ سکتا، نہ پاک کر سکتا ہے۔ اگر انسان کو اس کی حالت پر چھوڑ دیا جائے تو کوئی انسان بھی پاک نہ رہ سکے، کیونکہ شیطان اور اس کے لشکر اسے گمراہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور ’’فحشاء‘‘ اور ’’منکر‘‘ کو خوش نما بنا کر اس کے سامنے پیش کرتے رہتے ہیں، نفس امارہ ان کی طرف مائل ہے اور ان کا حکم دیتا ہے ۔انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے، یہ اللہ کا فضل اور اس کی رحمت ہی ہے جس کی بدولت کوئی شخص گناہوں سے پاک رہتا ہے، یا گناہ کے بعد توبہ کے ساتھ پاک ہوتا ہے۔ اس مفہوم کی آیات کے لیے دیکھیے سورۂ نساء (۱۶، ۱۷) اور سورۂ نجم (۳۲)۔ 3۔ اس مقام پر ان الفاظ سے مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ مذکورہ واقعۂ افک میں ملوث ہونے سے بچ گئے، یہ محض اللہ کا فضل و کرم ہے جو ان پر ہوا، ورنہ وہ بھی اسی رو میں بہ جاتے جس میں بعض مسلمان بہ گئے تھے۔ اس لیے شیطان کے مکر و فریب سے بچنے کے لیے ایک تو ہر وقت اللہ سے مدد طلب کرتے رہو اور اس کی طرف رجوع کرتے رہو اور دوسرے جو لوگ اپنے نفس کی کمزوری سے شیطان کے فریب کا شکار ہو گئے ان کو زیادہ ہدف ملامت نہ بناؤ، بلکہ خیر خواہانہ طریقے سے ان کی اصلاح کرو۔ 4۔ وَّ لٰكِنَّ اللّٰهَ يُزَكِّيْ مَنْ يَّشَآءُ وَ اللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ : یعنی اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے پاک کرتا ہے، مگر اس کی مشیت اندھی نہیں، بلکہ وہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔ اپنے اس علم ہی کی وجہ سے جسے پاک کرنے کے لائق جانتا ہے پاک کر دیتا ہے، جیسا کہ فرمایا: ﴿اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَآءُ وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ﴾ [القصص : ۵۶ ] ’’بے شک تو ہدایت نہیں دیتا جسے تو دوست رکھے اور لیکن اللہ ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو زیادہ جاننے والا ہے۔‘‘