سورة النور - آیت 15

إِذْ تَلَقَّوْنَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ وَتَقُولُونَ بِأَفْوَاهِكُم مَّا لَيْسَ لَكُم بِهِ عِلْمٌ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّنًا وَهُوَ عِندَ اللَّهِ عَظِيمٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

جب تم لوگ اس بہتان کو ایک دوسرے سے نقل کرتے تھے اور اپنی زبان پر ایسی بات لاتے تھے جس کا تمہیں کوئی علم نہیں تھا اور تم لوگ اسے ایک معمولی بات سمجھتے تھے، حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی تھی۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اِذْ تَلَقَّوْنَهٗ بِاَلْسِنَتِكُمْ: ’’ تَلَقّٰي يَتَلَقّٰي‘‘ (تفعّل) کسی سے کوئی چیز لینا، جیسے فرمایا: ﴿فَتَلَقّٰى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ ﴾ [البقرۃ : ۳۷ ] ’’پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ لیے۔‘‘ یعنی جب تم اس بہتان کو ایک دوسرے سے لے کر آگے بیان کرتے تھے کہ میں نے فلاں سے یوں سنا، فلاں نے یہ کہا وغیرہ۔ وَ تَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاهِكُمْ : یعنی یہ صرف تمھارے مونہوں کی بات تھی، نہ تمھارے دل میں اس کا یقین تھا نہ سننے والے کو یقین ہو سکتا تھا، جیسا کہ منافقین کے متعلق فرمایا: ﴿يَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاهِهِمْ مَّا لَيْسَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ﴾ [آل عمران : ۱۶۷ ] ’’اپنے مونہوں سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں۔‘‘ مَا لَيْسَ لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌ: ’’عِلْمٌ‘‘پر تنوین تنکیر کے لیے ہے، یعنی تم اپنے مونہوں سے وہ بات کہہ رہے تھے جس کا تمھیں کچھ علم نہ تھا۔ وَ تَحْسَبُوْنَهٗ هَيِّنًا : تم اسے معمولی سمجھتے تھے، جس کی دلیل یہ ہے کہ تم اسے ایک دوسرے سے لے کر آگے بیان کرتے تھے، یا کم از کم اس پر خاموش رہتے تھے، کیونکہ اگر تم اسے معمولی نہ سمجھتے تو سختی سے اس کا انکار کرتے اور ایسی بات کرنے والے کو ٹوکتے۔ وَ هُوَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِيْمٌ : حالانکہ بہتان کسی پر بھی ہو، اللہ کے ہاں بہت بڑا گناہ ہے، تو جب وہ ام المومنین پر ہو، جو خاتم الانبیاء، سید المرسلین اور سید ولد آدم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہے تو کتنا بڑا گناہ ہو گا۔ رازی نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں تین گناہوں کا مرتکب قرار دیا اور اس پر عذاب عظیم کے خطرے سے آگاہ فرمایا۔ پہلا گناہ یہ کہ ایک دوسرے سے سن کر اسے پھیلانا برائی کی اشاعت ہے، جو بہت بڑا گناہ ہے۔ دوسرا گناہ وہ بات کرنا ہے جس کا علم نہیں، اس سے معلوم ہوا کہ وہی بات کرنی چاہیے جس کا علم ہو، ایسی بات کرنا جس کے سچا ہونے کا علم نہ ہو اسی طرح حرام ہے جیسے وہ بات کرنا حرام ہے جس کے جھوٹا ہونے کا علم ہو، جیسا کہ فرمایا: ﴿وَ لَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ﴾ [بني إسرائیل : ۳۶ ] ’’اور اس چیز کا پیچھا نہ کر جس کا تجھے کوئی علم نہیں۔‘‘ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((كَفٰي بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُّحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ )) [ مسلم، المقدمۃ : ۵ ] ’’آدمی کو جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر بات جو سنے آگے بیان کر دے۔‘‘ تیسرا گناہ یہ کہ وہ اسے معمولی سمجھتے تھے، حالانکہ یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ 6۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ کسی شخص کے کسی گناہ کو معمولی سمجھنے سے وہ معمولی نہیں ہوتا، بلکہ عین ممکن ہے کہ وہ اس کی دنیا و آخرت کی بربادی کا باعث بن جائے، جب وہ اسے معمولی سمجھ کر بار بار اس کا ارتکاب کرتا رہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنَّ الْعَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ رِضْوَانِ اللّٰهِ لَا يُلْقِيْ لَهَا بَالًا يَرْفَعُ اللّٰهُ بِهَا دَرَجَاتٍ وَ إِنَّ الْعَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ سَخَطِ اللّٰهِ لَا يُلْقِيْ لَهَا بَالًا يَهْوِيْ بِهَا فِيْ جَهَنَّمَ )) [ بخاري، الرقاق، باب حفظ اللسان : ۶۴۷۸ ] ’’بندہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی بات کرتا ہے، جس کی طرف وہ خیال بھی نہیں کرتا، لیکن اللہ تعالیٰ اس بات کے ساتھ اسے بہت سے درجے بلند کر دیتا ہے اور بندہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی کی بات کرتا ہے، جس کی طرف وہ خیال بھی نہیں کرتا، لیکن اس کے ساتھ وہ جہنم میں گر جاتا ہے۔‘‘