وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ
اور جو لوگ پاکدامن عورتوں پر زنا کی تہمت (٤) دھریں، پھر چار گواہ نہ لائیں، انہیں تم لوگ اسی کوڑے لگاؤ، اور کبھی ان کی کوئی گواہی قبول نہ کرو، اور وہی لوگ فاسق ہیں۔
1۔ وَ الَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ : ’’ الْمُحْصَنٰتِ ‘‘ سے مراد پاک دامن عورتیں ہیں، کنواری ہوں یا شادی شدہ۔ ان پر تہمت لگانے سے مراد زنا کی تہمت ہے، کیونکہ ’’پاک دامن عورتوں‘‘ کا لفظ قرینہ ہے کہ ان پر تہمت پاک دامن نہ ہونے ہی کی ہے۔اس کے علاوہ چار گواہوں کی شہادت بھی دلیل ہے کہ مراد زنا کی تہمت ہے، اگر کوئی شخص کسی پر چوری یا شراب نوشی یا کفر وغیرہ کی تہمت لگائے تو اس پر حد قذف نافذ نہیں کی جائے گی، بلکہ حاکم کی صواب دید کے مطابق تعزیر ہو گی۔ اگرچہ یہاں ذکر پاک دامن عورتوں کا ہے مگر اس میں پاک دامن مرد بھی شامل ہیں، ان پر بہتان لگانے والوں پر بھی یہی حد لاگو ہو گی، کیونکہ جس علت کی بنا پر پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے کی حد مقرر کی گئی ہے وہی علت پاک دامن مردوں پر تہمت لگانے میں بھی موجود ہے۔ اس لیے پوری امت کا اجماع ہے کہ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے کی حد پاک دامن مرد پر تہمت لگانے والے پر بھی نافذ کی جائے گی۔ یہاں عورتوں کا ذکر اس لیے ہے کہ ان پر تہمت زیادہ تکلیف دہ اور باعث عار ہوتی ہے اور اس لیے بھی کہ آگے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا پر تہمت کا ذکر آ رہا ہے۔ 2۔ جو شخص کسی پاک دامن عورت پر زنا کی تہمت لگائے اس سے مطالبہ کیا جائے گا کہ اپنے دعوے کے ثبوت کے لیے چار مسلمان عادل مرد گواہ پیش کرے۔ (دیکھیے نساء : ۱۵) دوسرے کسی جرم کے ثبوت کے لیے چار گواہ مقرر نہیں کیے گئے۔ اگر کسی شخص نے کسی کو زنا کرتے ہوئے اپنی آنکھوں سے بھی دیکھا ہے تو اگر اس کے پاس مزید تین گواہ نہیں تو اسے اجازت نہیں کہ اس کا ذکر کرے، بلکہ اسے خاموش رہنے کا حکم ہے، تاکہ وہ گندگی جہاں ہے وہیں تک محدود رہے، معاشرے میں لوگوں کے ناجائز تعلقات کے چرچے نہ ہوں، کیونکہ اس سے بے شمار برائیاں پھیلتی ہیں، ماحول میں زنا کا تذکرہ اسے پھیلانے کا ذریعہ بنتا ہے۔ کوئی شخص اگر چھپ کر زنا کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کا اتنا نقصان نہیں جتنا زنا کی اشاعت (بے حیائی کی بات پھیلانے) سے معاشرے کا نقصان ہوتا ہے۔ ہاں، اگر کوئی شخص اتنی دیدہ دلیری سے زنا کرتا ہے کہ چار مرد اسے عین حالت زنا میں دیکھتے ہیں تو انھیں اجازت ہے کہ اسے حاکم کے پاس لے جائیں، تاکہ وہ اس پر حد نافذ کرکے اس خبیث فعل کی روک تھام کرے۔ ایک طرف زنا کی سخت ترین حد مقرر فرمائی، دوسری طرف لوگوں کی عزتوں کی حفاظت اور ان کی کمزوریوں پر پردے کے لیے حکم دیا کہ جو شخص کسی پاک دامن پر زنا کا الزام لگائے، پھر چار گواہ پیش نہ کرے تو اسے بہتان کی حد لگاؤ۔ بہتان لگانے والا مرد ہو یا عورت، جیسا کہ حسان بن ثابت اور مسطح بن اثاثہ( رضی اللہ عنھما ) کے ساتھ حمنہ بنت جحش( رضی اللہ عنھا ) پر بھی حد قذف لگائی گئی تھی۔ 3۔ جو شخص کسی پاک دامن مسلم مرد یا عورت پر زنا کا الزام لگائے، پھر چار گواہ نہ لا سکے تو اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق تین حکم دیے ہیں، پہلا یہ کہ اسے اسّی (۸۰) کوڑے مارو، دوسرا یہ کہ اس کی کوئی شہادت کبھی قبول نہ کرو اور تیسرا یہ کہ یہی لوگ فاسق (نافرمان) ہیں (اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ میں قصرِ قلب ہے)، نہ کہ وہ لوگ جنھیں یہ فاسق ثابت کرنا چاہتے تھے۔