سورة المؤمنون - آیت 116

فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

پس بہت ہی برتر و بالا ہے وہ اللہ جو بادشاہ برحق ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، وہ عرش کریم کا رب ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

فَتَعٰلَى اللّٰهُ....: ’’ تَعَالٰي‘‘ ’’عَلَا يَعْلُوْ‘‘ (ن) سے باب تفاعل ہے، جس میں مبالغہ ہوتا ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ’’پس بہت بلند ہے اللہ‘‘ یعنی اللہ کی شان اس سے بہت بلند ہے کہ وہ تمھیں بے کار اور بے مقصد پیدا کرے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی تین صفات بیان فرمائیں، جن میں سے ہر صفت کا تقاضا ہے کہ وہ کوئی کام عبث اور بے مقصد نہ کرے۔ الْمَلِكُ الْحَقُّ : پہلی صفت یہ ہے کہ وہ سچا بادشاہ ہے، اس کی بادشاہی حق اور ہمیشہ قائم رہنے والی ہے۔ دوسرے بادشاہ نہ اپنی بادشاہی کے حقیقی مالک ہیں اور نہ ان کی بادشاہی حق اور باقی رہنے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہتا ہے حکومت عطا کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَآءُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَآءُ﴾ [ آل عمران : ۲۶ ] ’’کہہ دے اے اللہ! بادشاہی کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی دیتا ہے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لیتا ہے۔‘‘ جب کوئی عقل مند آدمی بے مقصد کام نہیں کرتا تو سچا بادشاہ جو ساری کائنات کا اور بادشاہوں کا بادشاہ ہے، اس کے متعلق تم نے کیسے گمان کر لیا کہ اس نے تمھیں عبث اور بے مقصد پیدا کر دیا ہے؟ لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ: یہ دوسری صفت ہے، جس میں پیدا کرنے کی حکمت کی طرف بھی اشارہ ہے۔ یعنی صرف یہی نہیں کہ وہ بادشاہی میں یکتا ہے، بلکہ اس کے سوا کوئی معبود ہے ہی نہیں، عبادت صرف اسی کا حق ہے، کس قدر نادان ہو کہ اس وحدہ لا شریک لہ معبود نے تمھیں اپنی توحید اور عبادت کے لیے پیدا فرمایا اور تم نے گمان کر لیا کہ ہمیں پیدا کرنے کا کوئی مقصد ہی نہیں۔ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيْمِ : عرش کا معنی تخت ہے۔ کسی چیز کے کریم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں اس کی جنس کی اشیاء کی تمام خوبیاں اور کمالات موجود ہوں اور وہ ان سب سے بلند اور باشرف ہو، جیسے فرمایا : ﴿ اِنِّيْ اُلْقِيَ اِلَيَّ كِتٰبٌ كَرِيْمٌ ﴾ [ النمل : ۲۹ ] ’’بے شک میری طرف ایک عزت والا خط پھینکا گیا ہے۔‘‘ اور فرمایا : ﴿وَ زُرُوْعٍ وَّ مَقَامٍ كَرِيْمٍ ﴾ [ الدخان : ۲۶ ] ’’اور کھیتیاں اور عمدہ مقام۔‘‘ اور فرمایا : ﴿كَمْ اَنْۢبَتْنَا فِيْهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيْمٍ ﴾ [ الشعراء : ۷ ] ’’ہم نے اس میں کتنی چیزیں ہرعمدہ قسم میں سے اگائی ہیں۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا ﴾ [ بني إسرائیل : ۲۳ ] ’’اور ان سے بہت کرم والی بات کہہ۔‘‘ (ابن عاشور و راغب) اس آیت میں یہ اللہ تعالیٰ کی تیسری صفت ہے کہ وہ کائنات کی سب سے بڑی مخلوق عرشِ الٰہی کا مالک ہے، جو زمین و آسمان اور اس میں موجود ساری مخلوق کو محیط ہے اور سب سے بلند ہے، تو وہ باقی مخلوقات کا مالک کیوں نہ ہو گا۔ 5۔ عرش الٰہی کو کریم (عزت و شرف والا) اس لیے فرمایا کہ کسی جگہ کی عزت اس کے رہنے والے کی وجہ سے ہوتی ہے، جیسے کہتے ہیں ’’فُلَانٌ مِنْ بَيْتٍ كَرِيْمٍ‘‘ کہ فلاں شخص باعزت گھر کا فرد ہے۔ کیونکہ اس گھر کے رہنے والے معزز ہوتے ہیں۔ عرش کی سب سے بڑی عزت اور اس کا سب سے بڑا شرف یہ ہے کہ اس پر رب کریم مستوی ہے اور اس عرش ہی سے تمام احکامات اور ساری رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے۔ 6۔ پورے قرآن مجید میں ’’ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيْمِ ‘‘ اسی مقام پر آیا ہے۔ ’’ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ‘‘ دو جگہ آیا ہے، سورۂ توبہ (۱۲۹) اور نمل (۲۶) میں۔ یہاں عرش کی صفت کریم اس لیے آئی ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ کے عیب سے منزہ ہونے اور دنیا اور آخرت میں اس کی صفت عدل کا بیان مقصود ہے، جب کہ سورۂ توبہ اور نمل میں اس کی صفت قہر و جبروت کا بیان مقصود ہے۔ (بقاعی)