سورة المؤمنون - آیت 115

أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

کیا تم یہ گمان کیے بیٹھے ہو کہ ہم نے تمہیں بے کار (٣٨) پیدا کیا ہے، اور تم ہماری طرف دوبارہ لوٹائے نہیں جاؤ گے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا ....: یعنی پھر کیا تم نے سمجھ رکھا تھا کہ ہم اس دنیا میں عیش کرنے اور مزے لوٹنے ہی کے لیے پیدا ہوئے ہیں اور ہمیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ (دیکھیے قیامہ : ۳۶) تم نے دیکھا کہ اس دنیا میں نہ ظالموں کو ان کے ظلم کا پورا بدلا ملتا ہے، نہ اپنے خیال میں نیک اعمال کرنے والوں کو ان کی نیکی کا بدلا ملتا ہے اور نہ کوئی انسان دوبارہ زندہ ہو کر آیا جو تمھیں بتاتا کہ اچھے اعمال والوں کو ان کی جزا اور ظالموں کو ان کے ظلم کی سزا ملی ہے۔ لہٰذا تم نے یقین کر لیا کہ یہی دنیا ہی دنیا ہے، جس قدر ہو سکے یہاں عیش و عشرت کا سامان جمع کر لو۔ اس کے سوا زندگی کا کوئی مقصد نہیں، نہ ہمیں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا ہے، نہ کسی کے سامنے پیش ہونا ہے، حالانکہ اگر تم اس کائنات کے نظامِ عدل میں ذرا بھی غور کرتے، یا رسول کی بات پر یقین کرتے تو تمھیں معلوم ہو جاتا کہ اس کائنات اور اس میں انسان کو محض کھیل تماشے کے طور پر اور بے مقصد نہیں بنایا گیا، بلکہ ہر کام کا ایک نتیجہ ہے، پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تمھارے اچھے اور برے اعمال کا کوئی نتیجہ نہ نکلے اور چونکہ دنیا کی زندگی اعمال کا نتیجہ بھگتنے کے لیے بہت تھوڑی ہے، اس لیے مرنے کے بعد ہم نے ہمیشہ کی زندگی رکھی ہے، تاکہ عدل و انصاف کے تقاضے پورے کیے جا سکیں۔