ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ السَّيِّئَةَ ۚ نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَصِفُونَ
اے میرے پیغمبر ! آپ برائی کے بدلے میں وہ کیجیے جو سب سے اچھا ہو (٣٠) کفار آپ کے بارے میں جو کچھ کہا کرتے ہیں ہم اس سے خوب واقف ہیں۔
1۔ اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ السَّيِّئَةَ....: یعنی ہم عذاب میں جو تاخیر کر رہے ہیں اس میں ہماری حکمت ہے، آپ اس دوران ان کی ہر برائی اور زیادتی کا جواب ایسے طریقے سے دیں جو اچھا ہی نہیں، سب سے اچھا ہو۔ ہمیں خوب معلوم ہے کہ وہ کیا کچھ کہتے ہیں، کس طرح اللہ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں اور کس طرح آپ کو کاہن، شاعر، جادوگر اور دیوانہ وغیرہ کہتے ہیں۔ 2۔ برائی کا جواب بہترین طریقے سے یہ ہے کہ بدی کا جواب نیکی سے، ظلم کا جواب انصاف سے، خیانت کا جواب دیانت داری سے، جھوٹ کا جواب سچ سے، قطع رحمی کا جواب صلہ رحمی سے اور گالی گلوچ کا جواب دعا و سلام سے دیا جائے۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے ایسا کرنے کا نتیجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَ بَيْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ ﴾ [ حٰمٓ السجدۃ : ۳۴ ] ’’(برائی کو) اس (طریقے) کے ساتھ ہٹا جو سب سے اچھا ہے، تو اچانک وہ شخص کہ تیرے درمیان اور اس کے درمیان دشمنی ہے، ایسا ہو گا جیسے وہ دلی دوست ہو۔‘‘ اس میں عفو و درگزر کی تعلیم دی گئی ہے، کیونکہ لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنے کے لیے یہ سب سے اچھا طریقہ ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں : (( وَاللّٰهِ! مَا انْتَقَمَ لِنَفْسِهِ فِيْ شَيْءٍ يُؤْتَی إِلَيْهِ قَطُّ حَتّٰی تُنْتَهَكَ حُرُمَاتُ اللّٰهِ فَيَنْتَقِمُ لِلّٰهِ )) [ بخاري، الحدود، باب إقامۃ الحدود والانتقام لحرمات اللّٰہ : ۶۷۸۶ ] ’’اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ کی گئی کسی زیادتی میں اپنی ذات کا انتقام کبھی نہیں لیا، مگر اس صورت میں کہ اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کو پامال کیا جائے تو اللہ کی خاطر انتقام لیتے تھے۔‘‘