مَا اتَّخَذَ اللَّهُ مِن وَلَدٍ وَمَا كَانَ مَعَهُ مِنْ إِلَٰهٍ ۚ إِذًا لَّذَهَبَ كُلُّ إِلَٰهٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ
اللہ نے اپنی کوئی اولاد (٢٨) نہیں بنائی ہے، اور نہ اس کے ساتھ کوئی دوسرا معبود ہے، ورنہ ہر معبود اپنی مخلوقات کو لے کر الگ ہوجاتا وار ان میں سے ہر ایک دوسرے پر چڑھ بیٹھتا، اللہ ان تمام عیوب و نقائص سے پاک ہے جنہیں لوگ اس کی طرف منسوب کرتے ہیں۔
1۔ مَا اتَّخَذَ اللّٰهُ مِنْ وَّلَدٍ....: ’’ وَلَدٍ ‘‘ نکرہ پر ’’ مَا ‘‘ کے ساتھ نفی آئی تو عموم پیدا ہو گیا کہ ’’اللہ نے کوئی اولاد نہیں بنائی۔‘‘ ’’ مِنْ ‘‘ کے ساتھ اس عموم کی تاکید ہو گئی، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے : ’’اللہ تعالیٰ نے کوئی بھی اولاد نہیں بنائی۔‘‘ یعنی نہ کوئی فرشتہ، نہ نبی، نہ ولی، نہ کوئی اور۔ 2۔ تفسیر ابن کثیر میں ہے : ’’اللہ تعالیٰ اس سے اپنی برتری بیان فرما رہا ہے کہ اس کی اولاد ہو یا اس کا کوئی شریک ہو، ملک میں، تصرف میں، عبادت کا مستحق ہونے میں۔ وہ یکتا ہے، نہ اس کی اولاد ہے، نہ اس کا کوئی شریک ہے۔ اگر مان لیا جائے کہ کئی ایک الٰہ (معبود) ہیں تو ہر ایک اپنی مخلوق کا مستقل مالک ہونا چاہیے۔ ایسی صورت میں موجودات میں نظام قائم نہیں رہ سکتا، حالانکہ کائنات کا انتظام مکمل ہے۔ عالم علوی، عالم سفلی اور آسمان و زمین وغیرہ کمال ربط کے ساتھ اپنے اپنے کام میں مشغول ہیں۔ دستور سے ایک انچ اِدھر اُدھر نہیں ہوتے۔ پس معلوم ہوا کہ ان سب کا خالق و مالک ایک ہی ہے، نہ کہ متفرق کئی ایک۔ پھر بہت سے الٰہ (معبود) مان لینے کی صورت میں یہ بھی ظاہر ہے کہ ہر ایک دوسرے کو پست و مغلوب کرنا اور خود غالب اور طاقت ور ہونا چاہے گا، اگر غالب آ گیا تو مغلوب الٰہ (معبود) نہ رہا، اگر غالب نہ آیا تو وہ خود الٰہ (معبود) نہیں۔‘‘ (ابن کثیر) پس ثابت ہوا کہ معبود ایک اللہ ہے۔ وہ ظالم، سرکش، حد سے گزر جانے والے مشرک جو اللہ کی اولاد ٹھہراتے ہیں اور اس کے شریک بتاتے ہیں، ان کے بیان کردہ اوصاف سے ذات الٰہی بہت بلند و بالا اور برتر و منزہ ہے، وہ ہر چیز کو جانتا ہے جو مخلوق سے پوشیدہ ہے اور اسے بھی جو مخلوق پر عیاں ہے، پس وہ ان تمام شرکاء سے پاک ہے جو مشرک اور منکر اللہ کا شریک بتاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی اولاد یا شریک کے رد کے لیے دیکھیے سورۂ انبیاء (۲۲)، بنی اسرائیل (۴۲، ۱۱۱)، نحل (۵۷، ۵۸)، اور کہف (۴) کی تفسیر۔