بَلْ قَالُوا مِثْلَ مَا قَالَ الْأَوَّلُونَ
بلکہ یہ لوگ ویسی ہی باتیں کرتے ہیں جیسی اگلے لوگوں نے کی تھی۔
1۔ بَلْ قَالُوْا مِثْلَ مَا قَالَ الْاَوَّلُوْنَ: یہاں پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی ناراضی کے اظہار کے لیے انھیں مخاطب کرنا چھوڑ کر ان کا ذکر غائب کے صیغے کے ساتھ کرنا شروع کر دیا، گویا اتنی واضح دلیلوں کے بعد بھی انکار پر اڑے رہنے کی وجہ سے وہ اس قابل نہیں کہ انھیں مخاطب کیا جائے۔ 2۔ مرنے کے بعد زندگی کا انکار صرف قیامت کا انکار نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکمت کا بھی انکار ہے اور شرک ہی کا شاخسانہ ہے۔ جو شخص رب تعالیٰ کو ایک مانتا ہو اور اس کی قدرت و حکمت پر ایمان رکھتا ہو وہ کبھی قیامت کا انکار نہیں کر سکتا۔ 3۔ یعنی ان لوگوں کے پاس اپنے آباء کی تقلید کے سوا قیامت کے انکار اور دوسرے غلط عقائد و اعمال کے لیے کوئی عقلی یا نقلی دلیل نہیں ہے۔ 4۔ قَالُوْا ءَاِذَا مِتْنَا وَ كُنَّا تُرَابًا....: ’’جب ہم مر جائیں گے‘‘ ہی کافی تھا، مگر اس کے بعد ’’اور ہم مٹی اور ہڈیاں ہو جائیں گے ‘‘ کے الفاظ کے ساتھ وہ اپنے خیال میں مرنے کے بعد زندگی کے عقل سے بعید ہونے کی بات بہت مدلل کر رہے ہیں اور ’’ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ‘‘ میں ’’إِنَّ‘‘ اور ’’لام‘‘ کے ساتھ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قیامت کے عقیدے کو نہایت تاکید سے بیان کرنے کا ذکر کرتے ہوئے ہمزہ استفہام کے ساتھ اس کا شدت سے انکار کر رہے ہیں کہ بھلا ایسا بھی کبھی ہو سکتا ہے؟