سورة المؤمنون - آیت 76

وَلَقَدْ أَخَذْنَاهُم بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوا لِرَبِّهِمْ وَمَا يَتَضَرَّعُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور ہم نے انہیں عذاب میں گرفتار کیا، لیکن وہ اپنے رب کے سامنے نہیں جھکے اور نہ وہ گریہ و وزاری کرتے ہیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ لَقَدْ اَخَذْنٰهُمْ بِالْعَذَابِ ....: ’’ اَخَذْنٰهُمْ ‘‘ (ہم نے انھیں پکڑا) میں ’’هُمْ‘‘ (اُن) سے مراد موجودہ کفار و منکرین نہیں بلکہ اس سے مراد ان جیسے وہ منکرین ہیں جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں اور جو اپنے اپنے دور میں اسی طرح کے کفر و انکار پر اڑے ہوئے تھے۔ موجودہ دور کے منکرین کو تاریخ کے اس سبق کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ کے لیے آنے والے عذابوں سے سبق نہیں لیتے، یہاں تک کہ وہ اپنے آخری ہولناک انجام کو پہنچ کر رہتے ہیں۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ وہ پہلے کمتر درجے کا عذاب بھیجتا ہے، تاکہ لوگ سنبھل جائیں، فرمایا : ﴿ وَ لَنُذِيْقَنَّهُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰى دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَكْبَرِ ﴾ [ السجدۃ : ۲۱ ] ’’اور یقیناً ہم انھیں قریب ترین عذاب کا کچھ حصہ سب سے بڑے عذاب سے پہلے ضرور چکھائیں گے۔ ‘‘ پھر جب لوگ اس عذاب سے عبرت نہیں پکڑتے تو ان کی رسی دراز کر دی جاتی ہے اور انھیں نافرمانی کے باوجود خوش حالی عطا کر دی جاتی ہے، تاکہ ان پر حجت تمام ہو جائے۔ قرآن مجید میں یہ مضمون کثرت سے بیان ہوا ہے۔ دیکھیے سورۂ انعام ( ۴۲ تا ۴۴)، اعراف (۹۴ تا ۹۸)، یونس (۱۲ تا ۲۱) اور دخان (۱۰ تا ۱۶)۔ بعض مفسرین نے اس عذاب سے مراد وہ قحط لیا ہے جو ہجرت سے پہلے مکہ والوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بد دعا سے مسلط ہوا اور سخت عذاب والے دروازے سے مراد یوم بدر لیا ہے، جبکہ بعض نے اس عذاب سے مراد بدر اور سخت عذاب والے دروازے سے مراد ہجرت کے بعد ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کے گندم روک لینے سے واقع ہونے والا قحط لیا ہے۔ ابن جزی ’’التسہیل‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’زیادہ راجح یہ ہے کہ پہلے عذاب سے مراد دنیا کا عذاب ہے اور شدید عذاب سے مراد موت اور آخرت کا عذاب ہے۔ کیونکہ شدید عذاب وہی ہے، دنیا کا عذاب اس کے مقابلے میں ادنیٰ ہے۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ اِذَا هُمْ فِيْهِ مُبْلِسُوْنَ ﴾ یعنی ہر خیر سے ناامید ہوں گے۔ کفار کو یہ ناامیدی آخرت کے دن ہو گی، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ يَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُوْنَ ﴾ [ الروم : ۱۲ ] ’’اور جس دن قیامت قائم ہوگی مجرم نا امید ہو جائیں گے۔‘‘ بدر اور قحط کے بعد تو وہ بار بار حملہ آور ہوتے رہے تھے۔