وَلَوْ رَحِمْنَاهُمْ وَكَشَفْنَا مَا بِهِم مِّن ضُرٍّ لَّلَجُّوا فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ
اور اگر ہم ان پر رحم (٢٢) کریں اور انہیں جو تکلیف و پریشانی لاحق ہے اسے دور کردیں تو وہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہنے پر اور اصرار کرنے لگیں۔
وَ لَوْ رَحِمْنٰهُمْ وَ كَشَفْنَا مَا بِهِمْ مِّنْ ضُرٍّ ....: اس آیت کی ایک تفسیر وہ ہے جو ابن عاشور نے ’’التحریر والتنویر‘‘ میں اور بقاعی نے ’’نظم الدرر‘‘ میں فرمائی ہے۔ روح المعانی میں بھی اسے ایک امکان کے طو ر پر بیان کیا گیا ہے۔ وہ تفسیر یہ ہے کہ اس آیت کا عطف آیت (۶۴) : ﴿ حَتّٰى اِذَا اَخَذْنَا مُتْرَفِيْهِمْ بِالْعَذَابِ اِذَا هُمْ يَجْـَٔرُوْنَ ﴾ (یہاں تک کہ جب ہم ان کے خوش حال لوگوں کو عذاب میں پکڑیں گے، اچانک وہ بلبلا رہے ہوں گے) پر ہے اور اس آیت اور اُس آیت کے درمیان کی آیات جملہ ہائے معترضہ ہیں، جن سے مقصود ان کے خلاف دلائل کا ذکر اور ان کے عذر بہانے ختم کرنا ہے۔ یعنی اگر ہم ان کے چیخنے، پکارنے اور بلبلانے پر رحم کرکے ان پر آنے والا عذاب دور کر دیں، تب بھی وہ اپنی سرکشی سے باز نہیں آئیں گے، بلکہ اسی پر اڑے رہیں گے اور اسی میں سر مارتے پھریں گے، کیونکہ کفر اور سرکشی ان کی طبعی خصلت بن چکی ہے، جو کسی طرح ان سے جدا نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح فرمایا : ﴿ وَ لَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُهُوْا عَنْهُ وَ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ ﴾ [ الأنعام : ۲۸ ] ’’اور اگر انھیں واپس بھیج دیا جائے تو ضرور پھر وہی کریں گے جس سے انھیں منع کیا گیا تھا اور بلاشبہ وہ یقیناً جھوٹے ہیں۔‘‘ آیات کے سیاق سے یہ تفسیر نہایت مناسب ہے۔ دوسری تفسیر شیخ عبد الرحمان سعدی نے کی ہے کہ اس میں کفار کی شدید سرکشی اور ہٹ دھرمی کا بیان ہے کہ جب وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی مصیبت میں گرفتار ہوتے ہیں، مثلاً قحط پڑ جاتا ہے، بھوک سے لاچار ہو جاتے ہیں، سمندری طوفان میں گھر جاتے ہیں، یا کوئی وبا آ گھیرتی ہے تو خلوصِ دل کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے اسے دور کرنے کی دعا کرتے ہیں، پھر اگر اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرما کر وہ مصیبت دور کر دے تو بھی وہ اپنے کفر اور سرکشی پر اڑے رہتے ہیں اور اسی میں سر مارتے پھرتے ہیں، جیسا کہ فرمایا : ﴿وَ اِذَا اَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِّنْۢ بَعْدِ ضَرَّآءَ مَسَّتْهُمْ اِذَا لَهُمْ مَّكْرٌ فِيْ اٰيَاتِنَا قُلِ اللّٰهُ اَسْرَعُ مَكْرًا اِنَّ رُسُلَنَا يَكْتُبُوْنَ مَا تَمْكُرُوْنَ (21) هُوَ الَّذِيْ يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ حَتّٰى اِذَا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ وَ جَرَيْنَ بِهِمْ بِرِيْحٍ طَيِّبَةٍ وَّ فَرِحُوْا بِهَا جَآءَتْهَا رِيْحٌ عَاصِفٌ وَّ جَآءَهُمُ الْمَوْجُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَّ ظَنُّوْا اَنَّهُمْ اُحِيْطَ بِهِمْ دَعَوُا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ لَىِٕنْ اَنْجَيْتَنَا مِنْ هٰذِهٖ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِيْنَ (22) فَلَمَّا اَنْجٰىهُمْ اِذَا هُمْ يَبْغُوْنَ فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ﴾ [ یونس : ۲۱ تا ۲۳ ] ’’اور جب ہم لوگوں کو کوئی رحمت چکھاتے ہیں، کسی تکلیف کے بعد، جو انھیں پہنچی ہو، تو اچانک ان کے لیے ہماری آیات کے بارے میں کوئی نہ کوئی چال ہوتی ہے۔ کہہ دے اللہ چال میں زیادہ تیز ہے۔ بے شک ہمارے بھیجے ہوئے لکھ رہے ہیں جو تم چال چلتے ہو۔ وہی ہے جو تمھیں خشکی اور سمندر میں چلاتا ہے، یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں ہوتے ہو اور وہ انھیں لے کر عمدہ ہوا کے ساتھ چل پڑتی ہیں اور وہ اس پر خوش ہوتے ہیں تو ان (کشتیوں) پر سخت تیز ہوا آجاتی ہے اور ان پر ہرجگہ سے موج آجاتی ہے اور وہ یقین کر لیتے ہیں کہ ان کو گھیر لیا گیا ہے، تو اللہ کو اس طرح پکارتے ہیں کہ ہر عبادت کو اس کے لیے خالص کرنے والے ہوتے ہیں، یقیناً اگر تو نے ہمیں اس سے نجات دے دی تو ہم ضرور ہی شکر کرنے والوں سے ہوں گے۔ پھر جب اس نے انھیں نجات دے دی اچانک وہ زمین میں ناحق سرکشی کرنے لگتے ہیں۔‘‘