فَقَالُوا أَنُؤْمِنُ لِبَشَرَيْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُهُمَا لَنَا عَابِدُونَ
انہوں نے کہا، کیا ہم اپنے ہی جیسے دو انسان کے رسول ہونے پر ایمان لے آئیں، حالانکہ ان کی پوری قوم ہماری غلام ہے۔
فَقَالُوْا اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَيْنِ مِثْلِنَا ....: تکبر اور سرکشی کے نتیجے میں انھوں نے موسیٰ اور ہارون علیھما السلام کی بات ماننے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ کیا ہم اپنے جیسے دو انسانوں کی بات پر ایمان لے آئیں، جب کہ ان کے لوگ ہمارے غلام ہیں اور ہم ان سے بلند تر ہیں۔ پہلا اعتراض موسیٰ اور ہارون علیھما السلام کی ذات پر ہے اور دوسرا ان کی قوم پر ہے۔ تعجب ہوتا ہے کہ انھوں نے کھانے پینے اور چلنے پھرنے میں رسولوں کو اپنے جیسا بشر تو دیکھ لیا اور اسے جھٹلانے کا بہانہ بھی بنا لیا، مگر یہ نہ دیکھا کہ وہ ان کے دلائل و معجزات کے سامنے لاجواب ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود انھیں قتل کرنے سے عاجز ہیں۔ کم از کم وہ یہی سوچ لیتے کہ کوئی بشر وہ ہے جو جاہل اور عقل سے خالی ہے اور کوئی بشر وہ ہے جو اتنا علم اور اتنی عقل رکھتا ہے کہ بیان سے باہر ہے۔ جب علم و عقل میں اتنا تفاوت ہو سکتا ہے تو رسالت کا تفاوت کیوں نہیں ہو سکتا؟ اور اللہ اپنے کسی بندے پر یہ احسان کیوں نہیں کر سکتا۔ دیکھیے سورۂ ابراہیم (۱۰، ۱۱)۔