يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُم بِالْمَنِّ وَالْأَذَىٰ كَالَّذِي يُنفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا ۖ لَّا يَقْدِرُونَ عَلَىٰ شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُوا ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ
اے ایمان والو ! اپنے صدقات (363) کو احسان جتا کر اور اذیت پہنچا کر ضائع نہ کرو، اس آدمی کے مانند جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرتا ہے، اور اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتا ہے، اس کی مثال اس چٹان کی ہے جس پر مٹی پڑی ہو، پھر اس پر زور کی بارش ہو جو اسے صرف ایک سخت پتھر چھوڑ دے، ان ریاکاروں نے جو کچھ کمایا تھا اس میں سے انہیں کچھ بھی ہاتھ نہ آئے گا، اور اللہ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا۔
1۔ لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰى....: یعنی کسی کو صدقہ دینے کے بعد اس پر احسان جتلا کر یا اسے تکلیف دے کر اس منافق کی طرح اپنے اعمال کو ضائع نہ کرو جو صرف ریا کاری کے جذبہ کے تحت اپنا مال خرچ کرتا ہے اور اس کا اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں ہے۔ (ابن کثیر) 2۔ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ:یعنی یہ ریا کار بظاہر اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتا نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں اس کی مثال اس صاف چٹان کی سی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی جمی ہوئی ہو ( ”تُرَابٌ“ کی تنوین تقلیل کے لیے ہے) اور دیکھنے والا اسے قابل کاشت زمین خیال کرے، لیکن جونہی بارش ہو اس کی تمام مٹی دھل جائے اور وہ صاف چٹان کی چٹان رہ جائے، اسی طرح ریا کاروں کے عمل ان کے صحیفۂ اعمال سے مٹ جائیں گے اور وہ ان سے نہ کوئی فائدہ اٹھا سکیں گے اور نہ انھیں ان کا کوئی اجر ملے گا۔ اوپر کی آیت میں مثال تھی مخلص مومن کے صدقہ و خیرات کی، جو محض رضائے الٰہی کے لیے خرچ کرتا ہے اور یہ مثال ہے ریا کار کے خرچ کرنے کی، جس کا اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان نہیں ہے۔ (ابن کثیر)