سورة المؤمنون - آیت 23

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ أَفَلَا تَتَّقُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور ہم نے نوح (٧) کو ان کی قوم کے پاس بھیجا تو انہوں نے کہا اے میری قوم ! تم لوگ اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے، تو کیا تم اس سے ڈرتے نہیں ہو۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ: توحید و قیامت کے دلائل اور اپنی عظیم الشان نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد ان کا انکار کرنے والی اور رسولوں کو جھٹلانے والی قوموں کے انجام بد کا اور اپنے رسولوں کی نصرت کا ذکر فرمایا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے نوح علیہ السلام اور ان کی قوم کا ذکر فرمایا، کیونکہ زمین والوں کی طرف سب سے پہلے رسول وہی تھے اور نعمتوں کے تذکرے سے بات کا رخ نوح علیہ السلام کی طرف نہایت خوب صورت طریقے سے موڑا کہ آخری نعمت جو ذکر فرمائی وہ انسانوں کو کشتیوں پر سوار کرنا تھی اور سب سے پہلے کشتی کے سوار نوح علیہ السلام اور ان کے مومن ساتھی تھے، بعد میں تمام کشتیاں اسی کی طرز پر بنیں۔ (دیکھیے سورۂ یٰس : ۴۱ تا ۴۳) اس لیے کشتیوں کے بعد ان کا ذکر فرمایا۔ 2۔ انعامات اور دلائل توحید بیان کرنے کے بعد آگے انبیاء اور ان قوموں کے حالات بیان فرمائے جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں میں غور و فکر کے بجائے احسان فراموشی اور تکبر سے کام لیا، تو ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آ گیا۔ اس میں قریش اور دوسرے تمام کفار کو ڈرانا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دینا مقصود ہے۔ قرآن میں عموماً ’’ آلَاءُ اللّٰهِ ‘‘ (اللہ کی نعمتوں) کے بعد ’’ أَيَّامُ اللّٰهِ ‘‘ کا بیان ہوتا ہے، تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ 3۔ ’’ اِلٰى قَوْمِهٖ ‘‘ سے معلوم ہوا کہ نوح علیہ السلام صرف اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوئے تھے، یہ الگ بات ہے کہ اس وقت موجود ہی ان کی قوم تھی۔ تمام انسانوں اور جنوں کی طرف مبعوث ہونا صرف ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے۔ فَقَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ : ’’ يٰقَوْمِ‘‘ اصل میں ’’يَا قَوْمِيْ‘‘ ہے ’’اے میری قوم!‘‘ کتنی محبت اور نرمی سے خطاب فرمایا ہے، پھر فرمایا : ’’اللہ کی عبادت کرو۔‘‘ ہر پیغمبر کی دعوت یہی رہی ہے۔ (دیکھیے سورۂ انبیاء : ۲۵) نوح علیہ السلام کے واقعات کے لیے سورۂ اعراف (۵۹ تا ۶۴)، یونس (۷۱ تا ۷۳)، بنی اسرائیل (۳) اور سورۂ انبیاء (۷۶، ۷۷) بھی ملاحظہ فرمائیں۔ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ : ’’ مِنْ ‘‘ کے ساتھ معبودوں کے عموم کی تاکید ہے، اس لیے ترجمہ ہو گا ’’اس کے سوا تمھارا کوئی بھی معبود نہیں۔‘‘ یہ جملہ ’’ اعْبُدُوا اللّٰهَ ‘‘ کی علت ہے، یعنی اللہ کی عبادت کرو، کیونکہ اس کے سوا تمھارا کوئی بھی معبود نہیں۔ جب اور کوئی بھی معبود نہیں تو عبادت کیسی؟ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ : یعنی کیا اللہ کے ساتھ شریک بناتے ہوئے تم اس سے اور اس کے عذاب سے ڈرتے نہیں۔