وَعَلَيْهَا وَعَلَى الْفُلْكِ تُحْمَلُونَ
اور ان جانوروں پر اور کشتیوں پر سوار کیے جاتے ہو۔
وَ عَلَيْهَا وَ عَلَى الْفُلْكِ تُحْمَلُوْنَ : ’’ عَلَيْهَا ‘‘ (ان پر) سے مراد اونٹ ہیں، جو صحرا کے جہاز ہیں۔ عرب میں سواری اور بار برداری کے لیے زیادہ تر اونٹ ہی استعمال ہوتے تھے اور اونٹوں کے لیے ’’خشکی کے جہاز‘‘ کا استعارہ قدیم زمانے سے معروف ہے۔ ذو الرُّمّہ شاعر اپنی اونٹنی کے متعلق کہتا ہے: طُرُوْقًا وَجُلْبُ الرَّحْلِ مَشْدُوْدَةٌ بِهَا سَفِيْنَةُ بَرٍّ تَحْتَ خَدِّيْ زِمَامُهَا ’’رات کا وقت تھا اور ’’جُلْبُ الرَّحْلِ‘‘ (پالان کی لکڑیوں) کے ساتھ خشکی کا جہاز بندھا ہوا تھا، جس کی مہار میرے رخسار کے نیچے تھی۔‘‘ (اضواء البیان) خشکی کے جہازوں کی مناسبت سے بحری جہازوں کی نعمت کا ذکر بھی فرما دیا ہے۔ ’’سوار ہوتے ہو‘‘ کے بجائے ’’سوار کیے جاتے ہو ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اونٹ (اور ہاتھی) جیسے عظیم الجثّہ جانوروں پر سوار ہونا اور انھیں اپنا تابع فرمان بنانا تمھارے بس کی بات نہیں، بلکہ ان پر سوار کرنا اور انھیں تمھارے تابع فرمان بنا دینا ہمارا کام ہے، یقین نہ ہو تو ان سے بدرجہا چھوٹے جانوروں، مثلاً ہرن، بھیڑیے، لومڑی، گیدڑ اور چیتے وغیرہ کو ان کی طرح مانوس کرکے دکھاؤ۔ اسی طرح ہماری عظیم الشان مخلوق سمندر کہ جس کے مقابلے میں تم اتنے بھی نہیں جتنا صحرا کے مقابلے میں ریت کا ذرہ، اس پر سوار ہونا اور اس کا تمھیں اپنے سینے پر اٹھائے رکھنا تمھارے بس کی بات نہیں، یہ تو ہم ہیں جو تمھیں کشتیوں میں سوار کرکے اسے تمھارے تابع کر دیتے ہیں، اگر یقین نہ ہو تو ان طوفانوں کو یاد کرو جن کی بلاخیزی سے پہاڑوں جیسے جہاز آنکھ جھپکنے میں اس کی آغوش میں ڈوب جاتے ہیں۔