سورة المؤمنون - آیت 16

ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تُبْعَثُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

پھر بیشک تم لوگ قیامت کے دن دوبارہ اٹھائے جاؤأ گے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

ثُمَّ اِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ تُبْعَثُوْنَ : انسانی زندگی کے مراحل کو بطور دلیل بیان کرکے اصل بات بیان فرمائی، جسے کافر ناممکن خیال کرتے تھے کہ پھر ایک مدت کے بعد یقیناً تم دوبارہ زندہ کیے جاؤ گے۔ سورۂ حج میں واضح طور پر فرمایا : ﴿ يٰاَيُّهَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِيْ رَيْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَّ غَيْرِ مُخَلَّقَةٍ لِّنُبَيِّنَ لَكُمْ وَ نُقِرُّ فِي الْاَرْحَامِ مَا نَشَآءُ اِلٰى اَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْا اَشُدَّكُمْ وَ مِنْكُمْ مَّنْ يُّتَوَفّٰى وَ مِنْكُمْ مَّنْ يُّرَدُّ اِلٰى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِنْۢ بَعْدِ عِلْمٍ شَيْـًٔا وَ تَرَى الْاَرْضَ هَامِدَةً فَاِذَا اَنْزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَآءَ اهْتَزَّتْ وَ رَبَتْ وَ اَنْۢبَتَتْ مِنْ كُلِّ زَوْجٍۭ بَهِيْجٍ ﴾ [الحج : ۵ ] ’’اے لوگو! اگر تم اٹھائے جانے کے بارے میں کسی شک میں ہو تو بے شک ہم نے تمھیں حقیر مٹی سے پیدا کیا، پھر ایک قطرے سے، پھر کچھ جمے ہوئے خون سے، پھر گوشت کی ایک بوٹی سے، جس کی پوری شکل بنائی ہوئی ہے اور جس کی پوری شکل نہیں بنائی ہوئی، تاکہ ہم تمھارے لیے واضح کریں اور ہم جسے چاہتے ہیں ایک مقررہ مدت تک رحموں میں ٹھہرائے رکھتے ہیں، پھر ہم تمھیں ایک بچے کی صورت میں نکالتے ہیں، پھر تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچو اور تم میں سے کوئی وہ ہے جو قبض کر لیا جاتا ہے اور تم میں سے کوئی وہ ہے جو سب سے نکمی عمر کی طرف لوٹایا جاتا ہے، تاکہ وہ جاننے کے بعد کچھ نہ جانے۔ اور تو زمین کو مردہ پڑی ہوئی دیکھتا ہے، پھر جب ہم اس پر پانی اتارتے ہیں تو وہ لہلہاتی ہے اور ابھرتی ہے اور ہر خوبصورت قسم میں سے اگاتی ہے۔‘‘ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَا بَيْنَ النَّفْخَتَيْنِ أَرْبَعُوْنَ، قَالُوْا يَا أَبَا هُرَيْرَةَ! أَرْبَعُوْنَ يَوْمًا؟ قَالَ أَبَيْتُ، قَالَ أَرْبَعُوْنَ سَنَةً؟ قَالَ أَبَيْتُ، قَالَ أَرْبَعُوْنَ شَهْرًا؟ قَالَ أَبَيْتُ، وَيَبْلَہ كُلُّ شَيْءٍ مِنَ الْإِنْسَانِ إِلَّا عَجْبَ ذَنَبِهِ، فِيْهِ يُرَكَّبُ الْخَلْقُ)) [بخاري، التفسیر، باب قولہ : ﴿و نفخ في الصور....﴾ : ۴۸۱۴ ] ’’دو نفخوں کے درمیان چالیس کا عرصہ ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا : ’’اے ابوہریرہ! چالیس دن کا؟‘‘ کہا : ’’میں نہیں مانتا۔‘‘ انھوں نے کہا : ’’چالیس سال کا؟‘‘ کہا : ’’میں نہیں مانتا۔‘‘ انھوں نے کہا : ’’چالیس ماہ کا؟‘‘ کہا : ’’میں نہیں مانتا۔‘‘ (کیونکہ دنیا کے ایام اور ماہ و سال کی بساط تو سورج کے ساتھ ہی لپیٹی جا چکی ہو گی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اور انسان کی ہر چیز بوسیدہ ہو جائے گی، مگر اس کی دم کی ہڈی، اسی پر اس مخلوق کو جوڑا جائے گا۔‘‘