أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ
جن مومنوں کے خلاف جنگ (٢٤) کی جارہی ہے انہیں اب جنگ کی اجازت دے دی گئی اس لیے کہ ان پر ظلم ہوتا رہا ہے اور بیشک اللہ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے۔
1۔ اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ .... :’’أَيْ فِي الْقِتَالِ‘‘ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہلِ ایمان کے دفاع کا طریقہ بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ کام مسلمانوں سے لے گا، وہ اگر چاہے تو قوم نوح، عاد، ثمود، قوم لوط اور اصحابِ مدین کی طرح آسمانی عذاب کے ذریعے سے کفار کو تباہ و برباد کر سکتا ہے، مگر فرعون اور اس کے لشکر کو غرق کرنے کے بعد موسیٰ علیہ السلام کے زمانے سے اللہ تعالیٰ نے کفار کو مسلمانوں کے ہاتھوں سے سزا دلوانے کا طریقہ اختیار فرمایا، کیونکہ اس میں بے شمار حکمتیں ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ وَ يُخْزِهِمْ وَ يَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَ يَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُؤْمِنِيْنَ (14) وَ يُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوْبِهِمْ وَ يَتُوْبُ اللّٰهُ عَلٰى مَنْ يَّشَآءُ وَ اللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ ﴾ [ التوبۃ : ۱۴، ۱۵ ] ’’ان سے لڑو، اللہ انھیں تمھارے ہاتھوں سے عذاب دے گا اور انھیں رسوا کرے گا اور ان کے خلاف تمھاری مدد کرے گا اور مومن لوگوں کے سینوں کو شفا دے گا اور ان کے دلوں کا غصہ دور کرے گا اور اللہ تعالیٰ توبہ کی توفیق دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔‘‘ جہاد کی چند حکمتوں کے لیے دیکھیے سورۂ محمد (۴)، آل عمران (۱۴۰ تا ۱۴۲، ۱۷۹) اور توبہ (۱۶)۔ 2۔ یہ پہلی آیت ہے جس میں کفار سے لڑائی کی اجازت دی گئی ہے، کیونکہ مکہ میں کفار کی بے شمار زیادتیوں کے باوجود مسلمانوں کو لڑنے کی اجازت نہیں تھی، بلکہ ہاتھ روک کر رکھنے کا حکم تھا، جیسا کہ فرمایا : ﴿ اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ قِيْلَ لَهُمْ كُفُّوْا اَيْدِيَكُمْ وَ اَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ ﴾ [ النساء : ۷۷ ] ’’کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن سے کہا گیا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو۔‘‘عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں : (( لَمَّا أُخْرِجَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَكَّةَ قَالَ أَبُوْ بَكْرٍ أَخْرَجُوْا نَبِيَّهُمْ إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ ! لَيُهْلِكُنَّ فَأَنْزَلَ اللّٰهُ تَعَالٰی : ﴿ اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا وَ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرُ ﴾ وَهِيَ أَوَّلُ آيَةٍ نَزَلَتْ فِي الْقِتَالِ )) [ مستدرک حاکم :2؍ 246، ح : ۲۹۶۸۔ مسند أحمد :1؍ 216، ح : ۱۸۷۰ ] ’’جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے نکال دیا گیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’انھوں نے (مکہ والوں نے ) اپنے نبی کو نکال دیا، انا للہ و انا الیہ راجعون، وہ ضرور ہلاک کر دیے جائیں گے۔‘‘ تو اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی : ﴿ اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا وَ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرُ ﴾ [ الحج : ۳۹ ] عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا : ’’یہ وہ پہلی آیت ہے جو قتال کے بارے میں نازل ہوئی۔‘‘ جب مسلمان مدینہ منتقل ہو گئے تو چھوٹی سی اسلامی مملکت قائم ہو گئی۔ کفار نے یہاں بھی چین سے نہ بیٹھنے دیا تو اس آیت میں مسلمانوں کو بھی لڑائی کی اجازت مل گئی۔ یہ تقریباً ہجرت کے پہلے سال کے آخر کا واقعہ ہے، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار مکہ کے خلاف کئی مہمیں بھیجیں، جن کے نتیجے میں پہلا فیصلہ کن معرکہ بدر کے مقام پر ہوا، جسے اللہ تعالیٰ نے یوم الفرقان قرار دیا اور جس میں فرشتوں کے ذریعے سے مسلمانوں کی مدد کی گئی۔ 3۔ قتال (لڑائی) ایک نہایت مشکل کام ہے، بے شک موت کا وقت مقرر ہے مگر آدمی جان بچانے کے لیے لڑائی سے جان بچاتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے قتال فرض کرنے میں تدریج سے کام لیا، پہلے اس آیت کے ذریعے سے قتال کا اذن ملا، پھر ’’قَاتِلُوْا ‘‘ کے حکم کے ساتھ قتال فرض ہوا، مگر صرف ان لوگوں سے جو لڑائی کریں، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ قَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا ﴾ [ البقرۃ : ۱۹۰ ] ’’اور اللہ کے راستے میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں اور زیادتی مت کرو۔‘‘ اس کے بعد تمام کفار سے لڑنا فرض کر دیا گیا، فرمایا : ﴿ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَ هُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ ﴾[البقرۃ:۲۱۶] ’’تم پر لڑنا لکھ دیا گیا ہے، حالانکہ وہ تمھیں ناپسند ہے۔‘‘اور فرمایا: ﴿ فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُوْهُمْ وَ خُذُوْهُمْ وَ احْصُرُوْهُمْ وَ اقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ﴾ [التوبۃ:۵] ’’پس جب حرمت والے مہینے نکل جائیں تو ان مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو اور انھیں پکڑو اور انھیں گھیرو اور ان کے لیے ہر گھات کی جگہ بیٹھو۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ لَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَ لَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ لَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَّدٍ وَّ هُمْ صٰغِرُوْنَ ﴾ [ التوبۃ : ۲۹] ’’لڑو ان لوگوں سے جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ یوم آخر پر اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول نے حرام کی ہیں اور نہ دین حق کو اختیار کرتے ہیں، ان لوگوں میں سے جنھیں کتاب دی گئی ہے، یہاں تک کہ وہ ہاتھ سے جزیہ دیں اور وہ حقیر ہوں۔‘‘ ابن عمر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی يَشْهَدُوْا أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰهِ وَ يُقِيْمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ فَإِذَا فَعَلُوْا ذٰلِكَ عَصَمُوْا مِنِّيْ دِمَاءَ هُمْ وَ أَمْوَالَهُمْ إِلَّا بِحَقِّ الإْسْلَامِ وَ حِسَابُهُمْ عَلَی اللّٰهِ )) [ بخاري، الإیمان، باب ﴿ فإن تابوا و أقاموا الصلاۃ.... :﴾ ۲۵ ] ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمام لوگوں سے قتال (لڑائی) کروں، یہاں تک کہ وہ اس بات کی شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں، پھر جب وہ یہ کام کر لیں تو انھوں نے اپنے خون اور اپنے مال مجھ سے محفوظ کر لیے مگر اسلام کے حق کے ساتھ اور ان کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔‘‘ لڑائی کی تدریجاً فرضیت ایسے ہی ہے جیسے شراب تین مرحلوں میں مکمل حرام ہوئی۔ دیکھیے سورۂ مائدہ (۹۰) کی تفسیر۔ اسی طرح روزہ تین مرحلوں میں موجودہ صورت میں فرض ہوا۔ 4۔ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا : یعنی مسلمانوں کو قتال کی اجازت اس لیے دی گئی ہے کہ ان پر ظلم کیا گیا ہے، یہ ظلم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی کیا گیا اور مسلمانوں پر بھی۔ عروہ بن زبیر فرماتے ہیں : (( سَأَلْتُ عَبْدَ اللّٰهِ بْنَ عَمْرٍو عَنْ أَشَدِّ مَا صَنَعَ الْمُشْرِكُوْنَ بِرَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ رَأَيْتُ عُقْبَةَ بْنَ أَبِيْ مُعَيْطٍ جَاءَ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّيْ، فَوَضَعَ رِدَائَهٗ فِيْ عُنُقِهِ فَخَنَقَهُ بِهَا خَنْقًا شَدِيْدًا، فَجَاءَ أَبُوْ بَكْرٍ حَتّٰی دَفَعَهُ عَنْهُ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ﴿ اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ يَّقُوْلَ رَبِّيَ اللّٰهُ وَ قَدْ جَآءَكُمْ بِالْبَيِّنٰتِ مِنْ رَّبِّكُمْ ﴾ )) [ بخاري، فضائل أصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، باب : ۳۶۷۸ ] ’’میں نے عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما سے پوچھا : ’’مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ سخت تکلیف کیا پہنچائی تھی؟‘‘ انھوں نے فرمایا : ’’میں نے (بدبخت) عقبہ بن ابی معیط کو دیکھا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھا جبکہ آپ نماز پڑھ رہے تھے، اس نے اپنی چادر آپ کی گردن میں ڈالی اور آپ کا گلا بہت سختی سے گھونٹ دیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور اسے دھکیل کر پیچھے ہٹایا اور کہا : ﴿ اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ يَّقُوْلَ رَبِّيَ اللّٰهُ وَ قَدْ جَآءَكُمْ بِالْبَيِّنٰتِ مِنْ رَّبِّكُمْ ﴾ [ المؤمن : ۲۸ ] ’’کیا تم ایک آدمی کو اس لیے قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے، میرا رب اللہ ہے، حالانکہ یقیناً وہ تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے واضح دلیلیں لے کر آیا ہے۔‘‘ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : (( كَانَ أَوَّلَ مَنْ أَظْهَرَ إِسْلَامَهُ سَبْعَةٌ : رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَأَبُوْ بَكْرٍ، وَعَمَّارٌ، وَأُمُّهُ سُمَيَّةُ، وَصُهَيْبٌ، وَبِلاَلٌ، وَالْمِقْدَادُ ، فَأَمَّا رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ فَمَنَعَهُ اللّٰهُ بِعَمِّهِ أَبِيْ طَالِبٍ وَ أَمَّا أَبُوْ بَكْرٍ فَمَنَعَهُ اللّٰهُ بِقَوْمِهِ وَ أَمَّا سَائِرُهُمْ، فَأَخَذَهُمُ الْمُشْرِكُوْنَ وَأَلْبَسُوْهُمْ أَدْرَاعَ الْحَدِيْدِ وَصَهَرُوْهُمْ فِي الشَّمْسِ، فَمَا مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلاَّ وَقَدْ وَاتَاهُمْ عَلٰی مَا أَرَادُوْا، إِلاَّ بِلَالاً، فَإِنَّهُ هَانَتْ عَلَيْهِ نَفْسُهُ فِي اللّٰهِ، وَهَانَ عَلٰي قَوْمِهِ، فَأَخَذُوْهُ، فَأَعْطَوْهُ الْوِلْدَانَ، فَجَعَلُوْا يَطُوْفُوْنَ بِهِ فِيْ شِعَابِ مَكَّةَ وَهُوَ يَقُوْلُ : أَحَدٌ، أَحَدٌ )) [ ابن ماجہ، السنۃ، باب فضل سلمان وأبي ذر والمقداد : ۱۵۰ و صححہ الحاکم والذھبي وابن حبان وغیرھم و الألباني ] ’’سب سے پہلے جن لوگوں نے اپنے اسلام کا اظہار کیا وہ سات آدمی تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر، عمار، ان کی والدہ سمیہ، صہیب، بلال اور مقداد رضی اللہ عنھم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اللہ تعالیٰ نے آپ کے چچا ابو طالب کے ذریعے سے محفوظ رکھا، ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے ان کی قوم کے ذریعے سے محفوظ رکھا۔ باقی سب کو مشرکین نے پکڑ لیا اور انھیں لوہے کی قمیصیں پہنا کر دھوپ میں جھلسنے کے لیے پھینک دیا۔ چنانچہ ان میں سے جو بھی تھا اس نے اس کے مطابق کہہ دیا جو وہ چاہتے تھے سوائے بلال رضی اللہ عنہ کے۔ اللہ تعالیٰ کے معاملے میں اس کے نزدیک اس کی جان بے قدر و قیمت ٹھہری (اس نے اپنی جان کی کوئی پروا نہ کی) اور وہ ان لوگوں کی نظر میں ایسا بے قدر و قیمت ٹھہرا کہ انھوں نے اسے پکڑا اور لڑکوں کو دے دیا۔ وہ اسے مکہ کی گھاٹیوں میں پھراتے تھے اور وہ کہتا تھا : اللہ ایک ہے، اللہ ایک ہے۔‘‘ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو مشرکین کی بے تحاشا مار کا تذکرہ بھی کتبِ سیرت میں موجود ہے۔ جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : (( أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِعَمَّارٍ وَأَهْلِهِ وَهُمْ يُعَذَّبُوْنَ فَقَالَ أَبْشِرُوْا آلَ عَمَّارٍ وَآلَ يَاسِرٍ فَإِنَّ مَوْعِدَكُمُ الْجَنَّةُ )) [ مستدرک حاکم :3؍383، ح : ۵۶۶۶ و صححہ الحاکم و وافقہ الذھبی ] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمار اور اس کے خاندان کے پاس سے گزرے، جب انھیں عذاب دیا جا رہا تھا تو فرمایا : ’’اے آل عمار اور آل یاسر! خوش ہو جاؤ، تمھارے وعدے کی جگہ جنت ہے۔‘‘ خباب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ کعبہ کے سائے میں چادر کی ٹیک لگائے بیٹھے تھے اور ہمیں مشرکین کی طرف سے بہت سخت تکلیف پہنچی تھی۔ میں نے کہا : ’’کیا آپ اللہ سے دعا نہیں کرتے؟‘‘ آپ (سیدھے ہو کر) بیٹھ گئے اور آپ کا چہرہ (غصے سے) سرخ تھا، فرمایا : ’’تم سے پہلے لوگوں کے ساتھ یہ معاملہ ہوتا کہ لوہے کی کنگھیوں کے ساتھ ان کی ہڈیوں سے گوشت اور پٹھے چھیل دیے جاتے تھے، یہ چیز انھیں ان کے دین سے نہیں پھیرتی تھی اور انھیں سر کی چوٹی پر آرا رکھ کر دو حصوں میں چیر دیا جاتا، یہ چیز انھیں ان کے دین سے پھیرتی نہ تھی اور (اللہ کی قسم!) یہ کام ضرور پورا ہو کر رہے گا یہاں تک کہ سوار صنعاء سے حضر موت تک چلے گا اور اسے کسی کا خوف نہیں ہو گا سوائے اللہ کے، یا سوائے بھیڑیے کے اس کی بھیڑ بکریوں پر اور لیکن تم جلدی کرتے ہو۔‘‘ [ بخاري، مناقب الأنصار، باب ما لقي النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم و أصحابہ من المشرکین بمکۃ : ۳۸۵۲ ] کفار نے مسلمانوں پر اس قدر ظلم کیا اور اتنی ایذائیں دیں کہ ان میں سے کچھ حبشہ کی طرف ہجرت کرگئے اور کچھ مکہ ہی میں ظلم کی چکی میں پستے رہے، حتیٰ کہ انھوں نے مدینہ کی طرف ہجرت اختیار کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہجرت کرکے مدینہ چلے گئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی ایک دفعہ ہجرت کرنے کے لیے نکلے مگر ابن الدغنہ برک الغماد سے انھیں واپس لے آئے، پھر بعد میں وہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کرکے مدینہ چلے گئے۔ 5۔ وَ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرُ: یعنی اگرچہ ان کی تعداد بہت کم ہے، مگر اللہ تعالیٰ ان کی نصرت پر اور انھیں غالب کرنے پر پوری طرح قادر ہے۔ یہاں یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ اس وقت مدینہ کی چھوٹی سی بستی میں مسلمانوں کی تعداد چند سو سے زیادہ نہیں تھی، مقابلے میں قریش تھے، جن کی سرداری پورے عرب میں مسلم تھی اور عرب کے تمام مشرک قبائل ان کی پشت پر تھے، بعد میں یہودی بھی ان کے ساتھ مل گئے۔ اس موقع پر کائنات کے مالک اور شہنشاہ کا یہ فرمان کہ ’’بے شک اللہ ان کی مدد کرنے پر یقیناً پوری طرح قادر ہے‘‘ یہ جملہ ان مسلمانوں کو قوی اور قائم کر دینے والا تھا جنھیں پورے عرب کے مقابلے کے لیے کہا جا رہا تھا اور کفار کو بھی تنبیہ ہے کہ ان کا مقابلہ چند مسلمانوں سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ سے ہے، کیونکہ مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی قدرت کا بیان نہیں بلکہ مراد نصرت کا وعدہ ہے۔