سورة الحج - آیت 33

لَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ مَحِلُّهَا إِلَى الْبَيْتِ الْعَتِيقِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

تمہارے لیے ان جانوروں سے ایک مقرر وقت تک فائدہ اٹھانا جائز ہے، پھر ان کے حلال ہونے کی جگہ خانہ کعبہ تک انہیں پہنچانا ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

لَكُمْ فِيْهَا مَنَافِعُ اِلٰى اَجَلٍ مُّسَمًّى: فائدوں سے مراد ان کی سواری کرنا، ان کا دودھ پینا، ان سے نسل اور اون حاصل کرنا ہے، اسی طرح ان کے گوبر وغیرہ کو ایندھن یا کھاد کے طور پر استعمال کرنا ہے۔ مشرکین جس طرح قربانی کا گوشت نہیں کھاتے تھے اسی طرح قربانی کے جانوروں سے اون، دودھ یا سواری وغیرہ کا فائدہ اٹھانا بھی جائز نہیں سمجھتے تھے۔ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ قربانی کے جانوروں سے اس وقت تک فائدہ اٹھانا جائز ہے جب تک انھیں قربانی کے لیے نامزد نہ کیا جائے، اس کے بعد سواری یا دودھ یا اون کا فائدہ اٹھانا جائز نہیں۔ مگر یہ بات درست نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہاں ’’شعائر الله‘‘ سے فائدہ اٹھانا بطور احسان ذکر فرمایا ہے اور ظاہر ہے کہ قربانی کے لیے نامزد ہونے کے بعد ہی جانور ’’شعائر اللہ‘‘ میں شامل ہوتے ہیں۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : (( أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَی رَجُلاً يَسُوْقُ بَدَنَةً فَقَالَ ارْكَبْهَا فَقَالَ إِنَّهَا بَدَنَةٌ فَقَالَ ارْكَبْهَا قَالَ إِنَّهَا بَدَنَةٌ قَالَ ارْكَبْهَا وَيْلَكَ )) [ بخاري، الحج، باب رکوب البدن : ۱۶۸۹۔ مسلم، : ۱۳۲۳ ] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو ایک بدنہ (قربانی کے لیے مکہ جانے والا اونٹ) ہانک کر لے جاتے ہوئے دیکھا تو فرمایا : ’’اس پر سوار ہو جاؤ۔‘‘ اس نے کہا : ’’یہ بدنہ ہے۔‘‘ فرمایا : ’’اس پر سوار ہو جاؤ۔‘‘ اس نے کہا : ’’یہ بدنہ ہے۔‘‘ فرمایا : ’’اس پر سوار ہو جاؤ، افسوس ہو تم پر۔‘‘ جابر رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اِرْكَبْهَا بِالْمَعْرُوْفِ إِذَا أُلْجِئْتَ إِلَيْهَا حَتّٰی تَجِدَ ظَهْرًا )) [مسلم، الحج، باب جواز رکوب البدنۃ ....: ۱۳۲۴ ] ’’اس پر اس طرح سوار ہو جاؤ کہ اسے تکلیف نہ دو، جب تمھیں اس کی ضرورت پڑ جائے، یہاں تک کہ تمھیں کوئی اور سواری مل جائے۔‘‘ ابن کثیر نے شعبہ عن زہیر بن ابی ثابت الاعمی عن مغیرہ بن حذف کی سند سے علی رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے ایک شخص کو بدنہ ہانک کر لے جاتے ہوئے دیکھا، جس کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا، فرمایا : ’’اس کا دودھ صرف اتنا پیو جو اس کے بچے سے زائد ہو اور جب یوم النحرہو تو اسے اور اس کے بچے کو ذبح کر دو۔‘‘ یہ علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے اور تفسیر ابن کثیر کے محقق حکمت بن بشیر نے فرمایا، مجھے مغیرہ بن حذف کے حالات نہیں ملے اور متن میں بچے کو ذبح کرنے کی بات غریب (انوکھی) ہے۔ ثُمَّ مَحِلُّهَا اِلَى الْبَيْتِ الْعَتِيْقِ : ’’ مَحِلُّهَا‘‘ اترنے کی جگہ۔ حلال ہونے کی جگہ سے مراد یہ ہے کہ جہاں آخر قربانی کے جانوروں کو پہنچنا ہے اور نحر یا ذبح ہونا ہے وہ بیت عتیق (کعبہ) ہے۔ دوسری جگہ فرمایا : ﴿ هَدْيًۢا بٰلِغَ الْكَعْبَةِ ﴾ [ المائدۃ : ۹۵ ] یعنی قربانی کا ایسا جانور جو کعبہ تک پہنچنے والا ہو۔ ان دونوں آیتوں میں کعبہ سے مراد حرم کعبہ ہے، کیونکہ عین کعبہ میں تو قربانی نہیں کی جاتی، قربانی تو اس کے باہر کی جاتی ہے، چنانچہ پورے مکہ یا منیٰ میں جہاں بھی قربانی کی جائے درست ہے۔ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( كُلُّ عَرَفَةَ مَوْقِفٌ وَكُلُّ مِنًی مَنْحَرٌ وَكُلُّ الْمُزْدَلِفَةِ مَوْقِفٌ وَكُلُّ فِجَاجِ مَكَّةَ طَرِيْقٌ وَ مَنْحَرٌ)) [أبوداؤد، المناسک، باب الصلاۃ بجمع : ۱۹۳۷ ] ’’عرفہ پورا وقوف کی جگہ ہے، منیٰ پورا نحر کی جگہ ہے اور مزدلفہ پورا وقوف کی جگہ ہے اور مکہ کی تمام سڑکیں راستہ ہیں اور نحر کی جگہ ہیں۔ ‘‘ ہمارے استاذ محمد عبدہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں، اور ہو سکتا ہے کہ ’’مَحِلُّهَا ‘‘میں’’هَا‘‘ ضمیر سے مراد سارے شعائر ہوں، تو مطلب یہ ہو گا کہ آخر ان تمام مناسک کا خاتمہ بیت اللہ کے طواف کے ساتھ ہونا چاہیے۔ یہ معنی زیادہ مناسب ہے، ورنہ خصوصیت کے ساتھ ’’بیت عتیق‘‘ کہنے کا فائدہ واضح نہیں رہے گا۔ (قرطبی)