ذَٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللَّهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ عِندَ رَبِّهِ ۗ وَأُحِلَّتْ لَكُمُ الْأَنْعَامُ إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ ۖ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ
مذکورہ بالا باتیں لائق اہمیت ہیں، اور جو کوئی اللہ کی حرمتوں (١٨) کا احترام کرے گا تو اس کا یہ عمل صالح اس کے رب کے نزدیک اجر و ثواب کے اعتبار سے اس کے لیے زیادہ بہتر ہے، اور تمہارے لیے چوپایوں کو حلال کردیا گیا ہے، سوائے ان کے جن سے متعلق اس قرآن کی آیتیں تمہارے سامنے تلاوت کی جاتی ہیں، پس تم لوگ گندگی یعنی بتوں کی عبادت سے بچو، اور جھوٹ بولنے اور بہتان تراشی سے بچو۔
1۔ ذٰلِكَ: یہ لفظ دو کلاموں کے درمیان فاصلے کے لیے آتا ہے اور اس سورت میں تین دفعہ آیا ہے۔ ایک یہ، ایک آیت (۳۲) میں : ﴿ ذٰلِكَ وَ مَنْ يُّعَظِّمْ شَعَآىِٕرَ اللّٰهِ ﴾ اور ایک آیت (۶۰) میں : ﴿ ذٰلِكَ وَ مَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوْقِبَ بِهٖ﴾ اس کا مبتدا محذوف مانتے ہیں ’’اَلْأَمْرُ ذٰلِكَ‘‘ یعنی حج کا معاملہ تو یہ ہوا اور....۔ 2۔ وَ مَنْ يُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَّهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ : یعنی اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حرمتوں کی تعظیم خود بندے کے لیے بہتر ہے، کیونکہ یہ اس کے لیے اس کے رب کی رضا حاصل کرنے کا باعث ہے، جس کا فائدہ اسی کو ہو گا۔ ’’ حُرُمٰتِ اللّٰهِ ‘‘ سے مراد وہ تمام چیزیں ہیں جن کے احترام کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے، جیسے حرم، مسجد حرام، حرمت والے مہینے، ہدایا یعنی مکہ میں قربانی کے لیے جانے والے اونٹ، قلائد یعنی وہ بھیڑ بکریاں اور گائیں جن کے گلے میں قلادے (پٹے اور ہار) ڈالے ہوئے ہوں وغیرہ۔ ان سب کی تکریم ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے چلی آ رہی ہے، مگر مشرکین نے اپنے ملت ابراہیم کے پیروکار ہونے کے دعوے کے باوجود ان حرمتوں کو پامال کیا اور خود ساختہ چیزوں کو حرمت والا قرار دے لیا، جیسے بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حامی وغیرہ۔ ’’ وَ مَنْ يُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ ‘‘ کا مطلب یہ بھی ہے کہ احرام میں جو کام اللہ تعالیٰ نے حرام کیے ہیں، مثلاً شکار کرنا، شہوانی افعال، لڑائی جھگڑا، فسق و فجور وغیرہ، تو ان کے ارتکاب کو جو شخص بہت بڑا گناہ سمجھ کر ان سے اجتناب کرے تو یہ اس کے رب کے ہاں اس کے لیے بہتر ہے۔ 3۔ وَ اُحِلَّتْ لَكُمُ الْاَنْعَامُ اِلَّا مَا يُتْلٰى عَلَيْكُمْ : اس کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ مائدہ (۳) اور سورۂ نحل (۱۱۵)۔ 4۔ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ ....: ’’اُحِلَّتْ لَكُمُ الْاَنْعَامُ‘‘کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان چوپاؤں کے حلال ہونے کا حکم دیا جو مشرکین نے حرام کر رکھے تھے، مثلاً بحیرہ، سائبہ وغیرہ اور ’’ اِلَّا مَا يُتْلٰى عَلَيْكُمْ‘‘کے ساتھ ان جانوروں کو حرام قرار دیا جو مشرکین نے حلال کر رکھے تھے، مثلاً غیر اللہ کے نام پر ذبح کر دہ جانور اور مردار وغیرہ۔ مشرکین کے بعض جانوروں کو حرام اور بعض کو حلال کرنے کا باعث بتوں کی عبادت تھی اور یہ ان کا اللہ پر صاف جھوٹ اور بہتان تھا کہ حلال و حرام کا یہ حکم اس کا حکم ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے شرک اور جھوٹ دونوں سے بچنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ اس گندگی سے بچو جو بتوں کی صورت میں ہے اور جھوٹی بات سے بچو۔ یعنی مشرکین نے اللہ کے ساتھ جو بتوں کو شریک بنا رکھا ہے اور اللہ کے ذمے بعض چیزوں کو حلال یا حرام کرنے کا بہتان باندھ رکھا ہے تم اس شرک سے اور اس جھوٹ اور بہتان سے اجتناب کرو۔ ’’ قَوْلَ الزُّوْرِ ‘‘ کا لفظ عام ہے، اس لیے اس میں جھوٹی شہادت دینا، کسی پر بہتان لگانا، غرض کوئی بھی جھوٹ بولنا شامل ہے اور سب سے اجتناب کا حکم ہے۔ ’’ الرِّجْسَ ‘‘ کا معنی گندگی ہے، ’’ مِنْ ‘‘ بیان کرنے کے لیے ہے، یعنی گندگی ظاہری بھی ہوتی ہے مگر خاص طور پر حکم دیا کہ اس معنوی گندگی سے بچو جو بتوں کی صورت میں ہے۔ ابن جزی فرماتے ہیں : ’’ مِنْ لِبَيَانِ الْجِنْسِ كَأَنَّهُ قَالَ الرِّجْسُ الَّذِيْ هُوَ الْأَوْثَانُ۔‘‘