لِّيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۖ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ
تاکہ وہ اپنے لیے دینی اور دنیاوی فوائد حاصل کریں، اور چند متعین دنوں میں ان چوپایوں کو اللہ کے نام سے ذبح کریں جو اللہ نے بطور روزی انہیں دیا ہے، پس تم لوگ اس کا گوشت کھاؤ اور بھوکے فقیر کو بھی کھلاؤ۔
1۔ لِيَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ: یعنی لوگ پیدل اور سوار ہو کر حج کے لیے آئیں گے، تاکہ وہ اپنے بہت سے فائدوں میں حاضر ہوں۔ حج کا اصل مقصد تو عبادت کے ذریعے سے دینی اور اخروی فوائد حاصل کرنا ہے، لیکن ضمناً اس میں بہت سے دنیوی اور ملی فوائد بھی پائے جاتے ہیں۔ ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج و عمرہ کے دینی و دنیوی فوائد دونوں ذکر فرمائے ہیں، چنانچہ فرمایا : ((تَابِعُوْا بَيْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ فَإِنَّهُمَا يَنْفِيَانِ الْفَقْرَ وَالذُّنُوْبَ كَمَا يَنْفِي الْكِيْرُ خَبَثَ الْحَدِيْدِ وَالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ )) [ ترمذي، الحج، باب ما جاء في ثواب الحج والعمرۃ : ۸۱۰، عن عبد اللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ عنہ ] ’’حج اور عمرہ پے در پے کیا کرو، کیونکہ یہ فقر اور گناہوں کو اس طرح دور کرتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے اور سونے چاندی کے میل کچیل کو دور کر دیتی ہے۔‘‘ دینی فوائد میں بہت بڑا فائدہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت کا حصول ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اَلْعُمْرَةُ إِلَی الْعُمْرَةِ كَفَّارَةٌ لِمَا بَيْنَهُمَا وَالْحَجُّ الْمَبْرُوْرُ لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلَّا الْجَنَّةُ )) [ بخاري، الحج، باب وجوب العمرۃ و فضلھا : ۱۷۷۳۔ مسلم : ۱۳۴۹ ]’’ عمرہ سے لے کر عمرہ، دونوں کے درمیان کے گناہوں کا کفارہ ہے اور حج مبرور کی جزا جنت کے سوا کچھ نہیں۔‘‘ گناہوں کی معافی بھی بہت بڑا نفع ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَنْ حَجَّ لِلّٰهِ فَلَمْ يَرْفُثْ وَلَمْ يَفْسُقْ رَجَعَ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهٗ )) [ بخاري، الحج، باب فضل الحج المبرور : ۱۵۲۱، عن أبي ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ۔ مسلم :1350] ’’جو شخص حج کرے، نہ کوئی شہوانی فعل کرے اور نہ کوئی نافرمانی کرے تو واپس اس طرح (گناہوں سے پاک ہو کر) جائے گا جس طرح اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا : (( أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْإِسْلَامَ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهٗ وَأَنَّ الْهِجْرَةَ تَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهَا وَأَنَّ الْحَجَّ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهٗ )) [ مسلم، الإیمان، باب کون الإسلام یھدم ما قبلہ ....:۱۲۱ ] ’’کیا تمھیں یہ بات معلوم نہیں کہ اسلام اپنے سے پہلے (گناہوں) کو گرا دیتا ہے اور یہ کہ ہجرت اپنے سے پہلے (گناہوں) کو گرا دیتی ہے اور یہ کہ حج اپنے سے پہلے (گناہوں) کو گرا دیتا ہے۔‘‘ حج کے فوائد میں سے سب سے بڑا فائدہ تمام دنیا کے مسلمانوں کا جمع ہونا اور اس بات کا مظاہرہ ہے کہ ہم سب ایک امت ہیں، کالے، گورے، سرخ اور زرد کسی کو کسی پر رنگ یا زبان کی وجہ سے برتری حاصل نہیں، سب بھائی بھائی ہیں۔ اس موقع پر سب کا ایک دوسرے کے حالات سے آگاہ ہونا اور مشکل میں گرفتار اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے سوچنا اور اس کا بندوبست کرنا ہے۔ ان فوائد میں سے ایک فائدہ اس موقع پر تجارت، صنعت، مزدوری وغیرہ کے ذریعے سے حلال روزی کمانا بھی ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ ﴾ [ البقرۃ : ۱۹۸ ] ’’تم پر کوئی گناہ نہیں کہ اپنے رب کا کوئی فضل تلاش کرو۔‘‘ یہ مسلمانوں کی بین الاقوامی مصنوعات اورپیداوار سے آگاہی اور تمام دنیا کی باہمی تجارت منظم کرنے کا بہترین موقع ہے۔ اسی طرح اس موقع پر دنیا بھر کے علماء سے ملاقات اور دین و دنیا کے علوم میں اضافہ بھی حج کے فوائد میں سے بہت بڑا فائدہ ہے۔ پھر اس سفر کے دوران دنیا کے مختلف علاقوں اور لوگوں کے حالات سے واقفیت بھی بہت بڑا علم ہے جو حج کی برکات میں سے عظیم برکت ہے۔ خلاصہ یہ کہ حج مسلمانوں کے بے شمار سیاسی، اقتصادی، معاشی اور تمدنی فوائد کا جامع ہے۔ 2۔ وَ يَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِيْ اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰى مَا رَزَقَهُمْ....: قرآن مجید کی اصطلاح میں اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ چوپاؤں پر اللہ تعالیٰ کا نام لینے سے مراد انھیں ’’بِسْمِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ أَكْبَرُ‘‘ پڑھ کر ذبح کرنا ہے۔ دیکھیے سورۂ انعام (۱۱۸ تا ۱۲۱) یہاں حج کا ایک مقصد یہ بیان فرمایا کہ حج کرنے والے حضرات چند معلوم دنوں میں ان پالتو چوپاؤں پر اللہ کا نام ذکر کریں جو اس نے انھیں دیے ہیں۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے چوپاؤں کی نعمت بھی یاد دلائی ہے۔ یہ ’’ اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ ‘‘ (چند معلوم دن) کون سے ہیں؟ بعض بڑے بڑے جلیل القدر حضرات نے اس سے مراد ذوالحجہ کے پہلے دس دن اور سورۂ بقرہ (۲۰۳) میں ’’ اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ ‘‘ سے مراد ایام تشریق لیے ہیں؟ مگر بقول مفسر امین شنقیطی صاحب اضواء البیان : ’’ان حضرات کی جلالت قدر کے باوجود ان کا موقف درست نہیں، بلکہ درست بات ان حضرات کی ہے جو اس سے یوم النحر (دس ذوالحجہ) اور اس کے بعد والے دو یا تین دن مراد لیتے ہیں۔ کیونکہ اس آیت میں چند معلوم دنوں میں قربانی کا ذکر ہے، جب کہ ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں میں صرف ایک دن (دس ذوالحجہ) کو قربانی ہوتی ہے (حالانکہ ’’مَعْلُوْمٰتٍ ‘‘ کم از کم تین ہونے چاہییں)۔ خلاصہ یہ کہ ان ’’ اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ ‘‘ سے مراد وہ دن ہیں جن میں قربانی کی جاتی ہے اور وہ یوم النحراور اس کے بعد دو دن یا تین دن ہیں۔‘‘ یوم النحر کے بعد پورے ایام تشریق (۱۱، ۱۲، ۱۳) یعنی چار دن میں قربانی کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے : (( كُلُّ أَيَّامِ التَّشْرِيْقِ ذَبْحٌ (( ’’ایام تشریق سارے ذبح کے دن ہیں۔‘‘ شیخ البانی رحمہ اللہ نے ’’مَنَاسِكُ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ ‘‘ میں فرمایا کہ اسے احمد نے روایت کیا اور ابن حبان نے صحیح کہا ہے اور یہ میرے نزدیک اپنے مجموع طرق کے ساتھ قوی ہے، اسی لیے میں نے اسے سلسلہ صحیحہ (۲۴۷۶) میں درج کیا ہے۔ خلاصہ یہ کہ ان چار دنوں میں اللہ کی عطا کردہ بہت بڑی نعمت پالتو جانوروں کو اس کے نام پر قربان کرنا حج کے مقاصد میں سے ایک بہت بڑا مقصد ہے۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا : (( أَيُّ الْحَجِّ أَفْضَلُ؟ قَالَ الْعَجُّ وَ الثَّجُّ )) [ ترمذي، الحج، باب ما جاء في فضل التلبیۃ والنحر : ۸۲۷ ] ’’حج کی کون سی چیز افضل ہے؟‘‘ فرمایا : ’’(لبیک کے ساتھ) آواز بلند کرنا اور خون بہانا (قربانی کرنا)۔‘‘ 3۔ فَكُلُوْا مِنْهَا وَ اَطْعِمُوا ....: اس سے پہلے حج کرنے والوں کا ذکر غائب کے صیغوں کے ساتھ ہے، اب انھیں مخاطب کر لیا ہے کہ چوپائے جو میں نے تمھیں عطا کیے اور تم نے میرے نام پر قربان کیے، اب میری اس نعمت کا تقاضا ہے کہ خود بھی کھاؤ اور تنگ دست فقیر کو بھی کھلاؤ۔ ’’الْبَآىِٕسَ‘‘ کا معنی ہے جو مالی طور پر تنگدست ہو۔ فقیر بھی وہی ہے، صرف فقیر کی بدحالی پر رحم کو ابھارنے کے لیے ’’الْفَقِيْرَ‘‘ سے پہلے ’’ الْبَآىِٕسَ‘‘ ذکر فرمایا، کیونکہ فقیر کا لفظ تو عام استعمال ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ غنی کو نہیں کھلا سکتے، بلکہ یہ فقراء کو کھلانے کی تاکید کے لیے ہے، اغنیاء کو کھلانے کا ذکر آیت (۳۶) میں آ رہا ہے۔ خود کھانے کا حکم اس لیے دیا کہ مشرکین اپنی قربانی میں سے نہیں کھاتے تھے۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ خود کھانے کا حکم وجوب کے لیے نہیں بلکہ استحباب یا رخصت کے لیے ہے، یعنی تمھیں خود بھی کھانے کی اجازت ہے، ضروری نہیں کہ کھاؤ۔ بہرحال امر کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ہو سکے تو اپنی قربانی کا گوشت خود بھی کھانا چاہیے، جیسا کہ جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: (( أَنَّ الْبُدْنَ الَّتِيْ نَحَرَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ مِئَةَ بَدَنَةٍ نَحَرَ بِيَدِهٖ ثَلاَثًا وَّ سِتِّيْنَ وَنَحَرَ عَلِيٌّ مَا غَبَرَ وَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ كُلِّ بَدَنَةٍ بِبَضْعَةٍ فَجُعِلَتْ فِيْ قِدْرٍ ثُمَّ شَرِبَا مِنْ مَرْقِهَا )) [ مسند أحمد :3؍331، ح : ۱۴۵۶۱ ] ’’وہ اونٹ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نحر کیے ایک سو اونٹ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے تریسٹھ (۶۳) اونٹ نحر کیے اور باقی علی رضی اللہ عنہ نے کیے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اونٹ کا ایک ایک ٹکڑا لینے کا حکم دیا جو ایک دیگ میں ڈالے گئے، پھر دونوں نے اس کا کچھ شوربا پیا۔‘‘ شعیب ارناؤوط نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔