فَإِن تَوَلَّوْا فَقُلْ آذَنتُكُمْ عَلَىٰ سَوَاءٍ ۖ وَإِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ أَم بَعِيدٌ مَّا تُوعَدُونَ
پس اگر وہ لوگ منہ پھیر لیں تو آپ کہہ دیجیے کہ میں نے تمہیں پورے طور پر خبر کردی ہے اور میں نہیں جانتا کہ تم سے جس عذاب کا وعدہ کیا جارہا ہے اس کا وقت قریب ہے یا دور۔
1۔ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ اٰذَنْتُكُمْ....: ’’ إِنْ ‘‘ کا لفظ شک کے لیے آتا ہے، یعنی اول تو اتنے یقینی دلائل کے بعد ممکن نہیں کہ وہ مسلم نہ بنیں، لیکن اتنے واضح اور قطعی دلائل کے بعد بھی اگر وہ منہ موڑیں اور مسلم نہ بنیں تو ان سے کہہ دیجیے کہ تمھارے اسلام اور توحید سے منہ موڑنے کے بعد میں تمھیں صاف آگاہ کر رہا ہوں کہ تم نے توحید سے منہ موڑا تو میں نے بھی تمھارے شرک سے منہ موڑا، تاکہ یہ بات جاننے میں ہم تم دونوں برابر ہو جائیں۔ سورۂ کافرون میں بھی یہ اعلان صاف الفاظ میں سنا دیا گیا ہے۔ 2۔ وَ اِنْ اَدْرِيْ اَقَرِيْبٌ....: یعنی توحید سے منہ موڑنے کی وجہ سے عذاب کا تم پر آنا لازم ہے، مگر مجھے معلوم نہیں کہ تم سے جس دنیوی یا اخروی عذاب کا وعدہ کیا جا رہا ہے وہ قریب ہے یا دور، کیونکہ اس کا ٹھیک وقت اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔ سورۂ جن میں فرمایا: ﴿ قُلْ اِنْ اَدْرِيْ اَقَرِيْبٌ مَّا تُوْعَدُوْنَ اَمْ يَجْعَلُ لَهٗ رَبِّيْ اَمَدًا ﴾ [ الجن : ۲۵ ] ’’کہہ دے میں نہیں جانتا آیا وہ چیز قریب ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے، یا میرا رب اس کے لیے کچھ مدت رکھے گا۔‘‘