سورة الأنبياء - آیت 108

قُلْ إِنَّمَا يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ فَهَلْ أَنتُم مُّسْلِمُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اے میرے رسول ! آپ کہہ دیجیے (٤١) مجھ پر وحی نازل ہوتی ہے کہ تمہارا معبود صرف ایک ہی ہے، تو کیا تم لوگ اس کی بندگی کرنے والے ہو؟

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قُلْ اِنَّمَا يُوْحٰى اِلَيَّ اَنَّمَا اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ....: اس آیت میں ’’ اِنَّمَا ‘‘ کلمۂ حصر دو دفعہ آیا ہے۔ فرمایا، آپ کہہ دیں کہ میری طرف صرف یہ وحی ہوتی ہے کہ تمھارا معبود صرف ایک معبود ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تو اس کے علاوہ بھی بہت سی وحی آتی تھی، مثلاً رسالت، قیامت، نماز، روزہ اور دوسرے احکام، تو یہ کیوں فرمایا کہ میری طرف صرف ایک وحی آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ تمھارا معبود صرف ایک ہے؟ جواب یہ ہے کہ پوری شریعت کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمارا کام صرف ایک معبود کی عبادت یعنی ایک مالک کی غلامی ہے۔ وہ جو حکم دے اسے کرنا ہے، جس سے منع کرے اس سے باز رہنا ہے۔ اپنی ہر ضرورت اسی سے مانگنی ہے، کیونکہ اسے وہی پورا کر سکتا ہے، یہ تمام انبیاء کی دعوت ہے، فرمایا: ﴿ وَ مَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَا اِلٰهَ اِلَّا اَنَا فَاعْبُدُوْنِ ﴾ [ الأنبیاء : ۲۵ ] ’’اور ہم نے تجھ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی طرف یہ وحی کرتے تھے کہ حقیقت یہ ہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، سو میری عبادت کرو۔‘‘ یہی ملتِ ابراہیم ہے، فرمایا: ﴿ اِذْ قَالَ لَهٗ رَبُّهٗ اَسْلِمْ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ﴾ [ البقرۃ : ۱۳۱ ] ’’جب اس سے اس کے رب نے کہا، فرماں بردار ہو جا، اس نے کہا، میں جہانوں کے رب کے لیے فرماں بردار ہو گیا۔‘‘ شریعت کے تمام احکام اس مالک کی بندگی بجا لانے کی مختلف صورتیں ہیں اور سب ’’اَنَّمَا اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ‘‘ کی تفصیل ہیں۔ ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے: داستان حسن جب پھیلی تو لامحدود تھی اور جب سمٹی تو تیرا نام بن کر رہ گئی اس لیے یہاں جب اس حقیقت کے اعلان کا حکم دیا کہ میری طرف صرف یہ وحی ہوتی ہے کہ تمھارا معبود صرف ایک معبود ہے اور تمھارا کام اسی کی عبادت یعنی اس سے انتہا درجے کی محبت اور اس کے لیے انتہا درجے کی عاجزی کے ساتھ پوری طرح اس کا بندہ اور غلام بن جانا اور اسلام یعنی اپنے آپ کو مکمل طور پر اس کے سپرد کر دینا اور اپنی مرضی چھوڑ کر صرف اس کی مرضی پر چلنا ہے۔ تو آخر میں انھیں ایک اللہ کی عبادت اور اپنے آپ کو مکمل طور پر اس کے حوالے کرنے کا حکم دینے کے لیے استفہام کا طریقہ اختیار فرمایا کہ جب مجھے یہی وحی ہوتی ہے تو کیا اس کے مطابق تم اس کے لیے مسلم یعنی اس کے سپرد ہونے والے اور مکمل فرماں بردار بننے والے ہو؟ مقصد یہ ہے کہ ضرور بننا چاہیے، چنانچہ ہمارے نبی کو حکم ہوا: ﴿ قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَ نُسُكِيْ وَ مَحْيَايَ وَ مَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ (162) لَا شَرِيْكَ لَهٗ وَ بِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ ﴾ [ الأنعام : ۱۶۲، ۱۶۳ ] ’’کہہ دے بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے، جو جہانوں کا رب ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں حکم ماننے والوں میں سب سے پہلا ہوں۔‘‘