وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ
اور ہم نے لوح محفوظ میں لکھنے کے بعد تمام آسمانی کتابوں میں لکھ (٣٨) دیا ہے کہ سرزمین کے مالک میرے نیک بندے ہوں گے۔
وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ....: زبور کا معنی کتاب ہے، یہاں زبور سے مراد داؤد علیہ السلام کی کتاب ہے اور ذکر سے مراد نصیحت ہے، جیسا کہ ترجمہ کیا گیا ہے، کیونکہ موجودہ زبور میں یہ بات موجود ہے۔ یا پھر زبور سے مراد گزشتہ آسمانی کتابیں اور ذکر سے مراد لوح محفوظ ہے، یعنی پہلے لوح محفوظ میں یہ بات درج ہے اور اس کے بعد آسمانی کتابوں میں بھی یہ بات لکھی جاتی رہی ہے کہ زمین کے وارث نیک بندے ہوں گے۔ گویا یہ اللہ تعالیٰ کا کونی فیصلہ بھی ہے اور شرعی بھی۔ اس زمین سے کیا مراد ہے؟ آیات کے سیاق و سباق کو دیکھنے سے بات صاف سمجھ میں آ رہی ہے کہ اس سے مراد زمین و آسمان کی بساط لپیٹنے کے بعد وجود میں آنے والی زمین ہے، جو بطور انعام اللہ تعالیٰ کے صالح بندوں کو عطا کی جائے گی اور وہ ان کی دائمی اور ابدی وراثت ہو گی۔ چنانچہ موجودہ زبور اگرچہ تحریف سے خالی نہیں مگر یہ حوالہ اس میں بھی موجود ہے : ’’صادق زمین کے وارث ہوں گے اور اس میں ہمیشہ بسے رہیں گے۔‘‘ [زبور، باب : ۳۷، آیت : ۲۹ ] قرآن مجید میں بھی بطور انعام ملنے والی اس وراثت کا ذکر ہے جو ہمیشہ رہے گی، چنانچہ فلاح پانے والے مومنوں کے اوصاف ذکر کرنے کے بعد فرمایا : ﴿اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَ (10) الَّذِيْنَ يَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ﴾ [المؤمنون : ۱۰، ۱۱ ] ’’یہی لوگ ہیں جو وارث ہیں، جو فردوس کے وارث ہوں گے، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ وَ قَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ صَدَقَنَا وَعْدَهٗ وَ اَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَتَبَوَّاُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ نَشَآءُ فَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِيْنَ ﴾ [ الزمر : ۷۴ ] ’’اور وہ (جنتی) کہیں گے سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے ہم سے اپنا وعدہ سچا کیا اور ہمیں اس زمین کا وارث بنا دیا کہ ہم جنت میں سے جہاں چاہیں جگہ بنا لیں، سو یہ عمل کرنے والوں کا اچھا اجر ہے۔‘‘ زبور اور قرآن دونوں سے معلوم ہوا کہ صالحین کو بطور انعام ملنے والی وراثت ارضِ جنت ہے، کیونکہ ہمیشہ کا بسیرا وہی ہے۔ رہی موجودہ زمین، تو اس کی وراثت صالح و طالح، کافر و مسلم دونوں کو ملتی ہے اور صرف انعام کے طور پر نہیں، بلکہ امتحان کے لیے ملتی ہے اور ہمیشہ کے لیے نہیں بلکہ عارضی ہے، جیسا کہ فرمایا: ﴿ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهِ اسْتَعِيْنُوْا بِاللّٰهِ وَ اصْبِرُوْا اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰهِ يُوْرِثُهَا مَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ (128) قَالُوْا اُوْذِيْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِيَنَا وَ مِنْۢ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا قَالَ عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ يُّهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَ يَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَ ﴾ [ الأعراف : ۱۲۸، ۱۲۹ ] ’’موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا، اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو، بے شک زمین اللہ کی ہے، وہ اس کا وارث اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے بناتا ہے اور اچھا انجام متقی لوگوں کے لیے ہے۔ انھوں نے کہا، ہمیں اس سے پہلے ایذا دی گئی کہ تو ہمارے پاس آئے اور اس کے بعد بھی کہ تو ہمارے پاس آیا۔ اس نے کہا، تمھارا رب قریب ہے کہ تمھارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تمھیں زمین میں جانشین بنا دے، پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔‘‘ اس زمین کی وراثت نہ نیکی و بدی پر موقوف ہے اور نہ ابدی اور دائمی ہے، فرمایا: ﴿ وَ تِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ ﴾ [ آل عمران : ۱۴۰ ] ’’اور یہ تو دن ہیں، ہم انھیں لوگوں کے درمیان باری باری بدلتے رہتے ہیں۔‘‘ البتہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر مسلمان صحیح مومن ہوں تو دنیا میں بھی آخر وہی غالب رہیں گے، چنانچہ فرمایا: ﴿ وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ﴾ [آل عمران : ۱۳۹ ] ’’اور تم ہی غالب ہو، اگر تم مومن ہو۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَيْـًٔا وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ﴾ [ النور : ۵۵ ] ’’اللہ نے ان لوگوں سے جو تم میں سے ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے، وعدہ کیا ہے کہ وہ انھیں زمین میں ضرور ہی جانشین بنائے گا، جس طرح ان لوگوں کو جانشین بنایا جو ان سے پہلے تھے اور ان کے لیے ان کے اس دین کو ضرور ہی اقتدار دے گا جسے اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے اور ہر صورت انھیں ان کے خوف کے بعد بدل کرامن دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے، میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں گے اور جس نے اس کے بعد کفر کیا تو یہی لوگ نافرمان ہیں۔‘‘ ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنَّ اللّٰهَ تَعَالٰی زَوَی لِيَ الْأَرْضَ فَأُرِيْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا وَإِنَّ مُلْكَ أُمَّتِيْ سَيَبْلُغُ مَا زُوِيَ لِيْ مِنْهَا وَأُعْطِيْتُ الْكَنْزَيْنِ الْأَحْمَرَ وَالْأَبْيَضَ)) [أبوداؤد، الفتن والملاحم، باب ذکر الفتن و دلائلھا : ۴۲۵۲، و صححہ الألباني ]’’اللہ تعالیٰ نے میرے لیے زمین تہ کر دی تو میں نے اس کے مشرق اور مغرب دیکھ لیے اور میری امت کا ملک وہاں تک پہنچے گا جہاں تک وہ میرے لیے تہ کی گئی ہے اور مجھے سرخ اور سفید (سونا اور چاندی) دو خزانے دیے گئے ہیں۔‘‘ اور واقعی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کے مطابق چند ہی سالوں میں مسلمان زمین کے مشرق و مغرب کے مالک بن گئے، مگر جب ان میں ایمان اور عمل صالح کی کمی ہوئی، انھوں نے ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ میں کوتاہی کی اور عیش و عشرت میں پڑ گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کے اور اپنے دشمن سزا دینے کے لیے مسلط کر دیے، جس طرح بنی اسرائیل پر بخت نصر کو مسلط کیا تھا۔ دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل (۵ تا ۷) معلوم ہوا ایسا نہیں ہے کہ جو بھی اس زمین کے کسی حصے کا مالک بن جائے وہ صالحین میں شمار ہو گیا، ورنہ فرعون، ہامان، قارون، شداد، نمرود، چنگیز، ہلاکو، ہٹلر، نپولین، بش، کمیونسٹ، گائے اور بتوں کے پجاری اور تثلیث کے فرزند اللہ کے صالح بندے شمار ہوں گے اور آج کل کے روشن خیال یہی چاہتے ہیں کہ مغرب کے مشرکوں، بدکاروں اور ہم جنس پرستوں کو صالح شمار کیا جائے، تاکہ انھیں اللہ اور اس کے رسول کے احکام پر عمل کرنے سے چھٹکارا مل جائے۔