إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُم مِّنَّا الْحُسْنَىٰ أُولَٰئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ
بیشک جن لوگوں کے لیے ہماری جانب سے بھلائی (جنت) کا فیصلہ (٣٦) ہوچکے گا، انہیں اس جہنم سے دور رکھا جائے گا۔
اِنَّ الَّذِيْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰى ...:’’ الْحُسْنٰى ‘‘ ’’اَلْأَحْسَنُ‘‘ کی مؤنث ہے، معنی ہے سب سے اچھی چیز۔ مراد وہ سعادت اور خوش قسمتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی ان کی تقدیر میں لکھ دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شرک کی وجہ سے جہنم میں جانے والوں کے ذکر کے بعد اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھنے والوں کا ذکر فرمایا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سعادت اورنیک اعمال کی توفیق یا معافی مقدر کر دی ہے اور وہ جہنم سے دور رکھے جائیں گے۔ بعض مفسرین نے اس آیت سے مراد وہ صالحین، انبیاء اور فرشتے لیے ہیں جن کی مشرکین عبادت کرتے تھے۔ ان کے مطابق یہ آیت مشرکین کے جواب میں اتری ہے جنھوں نے اعتراض کیا تھا کہ اگر اللہ کے علاوہ جن کی عبادت کی گئی ہے وہ جہنم میں جائیں گے تو لوگوں نے عبادت فرشتوں اور پیغمبروں کی بھی کی ہے۔ جواب یہ دیا گیا کہ یہ لوگ جہنم سے دور رکھے جائیں گے۔ اگرچہ اس آیت میں اس اعتراض کا جواب بھی موجود ہے، تاہم آیت کے الفاظ عام ہیں، اس لیے اس میں فرشتوں، پیغمبروں اور صالحین کے ساتھ تمام سعادت مند مومن بھی شامل ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کا خاص اسلوب ہے کہ وہ جنت و جہنم اور نیک و بد دونوں کا ذکر ساتھ ساتھ فرماتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سعادت مند لوگوں کو عطا ہونے والی پانچ نعمتیں ذکر فرمائی ہیں، جن میں سے پہلی یہ ہے کہ وہ جہنم سے دور رکھے جائیں گے۔