إِنَّ هَٰذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ
بیشک یہ تمہاری جماعت (٣٣) ہے جو ایک جماعت ہے اور میں تم سب کا رب ہوں، پس تم لوگ صرف میری عبادت کرو۔
اِنَّ هٰذِهٖ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً....: بہت سے مفسرین نے یہاں امت سے مراد دین لیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کا قول نقل فرمایا: ﴿ اِنَّا وَجَدْنَا اٰبَآءَنَا عَلٰى اُمَّةٍ ﴾ [ الزخرف : ۲۲ ] ’’بے شک ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک امت (یعنی ایک دین) پر چلتے پایا۔‘‘ یعنی تمھارا دین اور ملت ایک ہی ہے اور وہ ہے دین توحید، اور ’’هٰذِهٖ ‘‘ سے مراد اس سے پہلے مذکور انبیاء، نوح، ابراہیم، اسحاق، یعقوب، لوط، داؤد، سلیمان، ایوب، اسماعیل، ادریس، ذوالکفل، یونس، زکریا، مسیح ابن مریم علیھم السلام ہیں کہ سب کا ایک ہی دین تھا اور سب توحید پر قائم تھے۔ کسی اور کو معبود، مشکل کُشا، شفا دینے والا، بگڑی بنانے والا یا اولاد عطا کرنے والا نہیں سمجھتے تھے، یہ سب لوگ ایک ہی دین پر تھے کہ میں تمھارا رب ہوں، سو میری ہی عبادت کرو۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَلْأَنْبِيَاءُ إِخْوَةٌ لِعَلاَّتٍ أُمَّهَاتُهُمْ شَتّٰی وَدِيْنُهُمْ وَاحِدٌ)) [بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب ﴿واذکر في الکتاب مریم....﴾ : ۳۴۴۳۔ مسلم :145؍2365] ’’انبیاء علاتی بھائی ہیں، جن کی مائیں مختلف ہیں اور ان کا دین ایک ہے۔‘‘ امت کا معنی جماعت بھی ہے، مگر ایسی جماعت جس کے لوگوں کے درمیان انھیں اکٹھا رکھنے والی کوئی چیز ہو، جیسا کہ فرمایا: ﴿ وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ ﴾ [ آل عمران : ۱۰۴ ] ’’اور لازم ہے کہ تمھاری صورت میں ایک جماعت ہو جو نیکی کی طرف دعوت دیں۔‘‘ یعنی یہ تمام انبیاء ایک ہی جماعت تھے جن کا رب ایک اور دین ایک تھا۔