وَزَكَرِيَّا إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا وَأَنتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ
اور زکریا (٣٠) نے اپنے رب کو پکارا کہ میرے رب ! مجھے تنہا نہ چھوڑ دے اور تو تو سب سے اچھا وارث ہے۔
1۔ وَ زَكَرِيَّا اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ....: یہ اس سورت میں مذکور نواں قصہ ہے، اس کی تفصیل سورۂ آل عمران (۳۹ تا ۴۱) اور سورۂ مریم ( ۱ تا ۱۵) میں ملاحظہ فرمائیں۔ 2۔ وَ اَنْتَ خَيْرُ الْوٰرِثِيْنَ : وارث وہ ہے جو کسی مالک کے فوت ہونے کے بعد اس کی ملکیت کا مالک بنے۔ اصل وارث سب کا اللہ تعالیٰ ہی ہے، جیسا کہ فرمایا: ﴿ اِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْاَرْضَ وَ مَنْ عَلَيْهَا ﴾ [ مریم : ۴۰ ] ’’بے شک ہم، ہم ہی زمین کے وارث ہوں گے اور ان کے بھی جو اس پر ہیں۔‘‘ زکریا علیہ السلام نے اپنے علم و نبوت کا وارث عطا کرنے کی درخواست کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی صفت ’’ خَيْرُ الْوٰرِثِيْنَ ‘‘ کا وسیلہ پکڑا۔ قرآن و سنت میں مذکور دعاؤں میں ہر دعا کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کی صفت کا ذکر ہے، جیسا کہ ایوب علیہ السلام نے ’’وَ اَنْتَ خَيْرُ الْوٰرِثِيْنَ ‘‘ کہا اور یونس علیہ السلام نے ’’ لَا اِلٰهَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحٰنَكَ ‘‘ کہا۔ بعض مفسرین نے اس جملہ کی یہ توجیہ فرمائی ہے کہ میں تجھ سے وارث عطا کرنے کی دعا کر رہا ہوں، مگر حقیقی وارث تو ہی ہے، اگر تو مجھے اولاد نہ بھی دے گا تب بھی میرے بعد اپنے دین کا انتظام ضرور کرے گا۔ (قرطبی)