فَهَزَمُوهُم بِإِذْنِ اللَّهِ وَقَتَلَ دَاوُودُ جَالُوتَ وَآتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَهُ مِمَّا يَشَاءُ ۗ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْأَرْضُ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِينَ
تو انہوں نے اللہ کے حکم سے انہیں شکست دی، اور داود نے جالوت کو قتل کردیا، اور اللہ نے داود کو ملک و حکمت دیا، اور وہ جو چاہتے تھے انہیں سکھایا، اور اگر اللہ بعض لوگوں کو بعض کے ذریعہ دفع نہ کرے (344) تو زمین میں فساد پھیل جائے، لیکن اللہ دنیا والوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے
1۔ فَهَزَمُوْهُمْ بِاِذْنِ اللّٰهِ:چنانچہ ان تھوڑےسےمسلمانوں نےجالوت کے لشکروں کو اللہ کے حکم سے شکست دی اور داؤد علیہ السلام نے، جو اس وقت ایک سپاہی تھے، کفار کے بادشاہ جالوت کو قتل کر دیا، جس کے نتیجے میں طالوت کے بعد اللہ تعالیٰ نے انھیں سلطنت اور حکمت یعنی نبوت عطا فرمائی اور جو چاہا سکھایا، ان کو سکھائے گئے علوم میں سے قرآن مجید میں ان کے اسلحہ سازی کے علم، پرندوں کی بولی کے علم اور حکم یعنی قوتِ فیصلہ کا ذکر ہے۔ اس کے علاوہ ان کی خوش الحانی اور پرندوں اور پہاڑوں کے ان کے ساتھ تسبیح کرنے کا بھی ذکر ہے۔ 2۔ نادان لوگ کہتے ہیں کہ لڑائی کرنا نبیوں کا کام نہیں، اس قصہ سے معلوم ہوا کہ جہاد ہمیشہ سے رہا ہے اور اگر جہاد نہ ہو تو مفسد لوگ شہروں کو ویران کر ڈالیں۔ (موضح) 3۔ وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ....: اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب کوئی گروہ قوت و اقتدار کے نشے میں بدمست ہو کر انسانی حد سے آگے بڑھنا چاہتا ہے تو اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کسی دوسرے گروہ کو اٹھا کر اس کی سرکوبی کروا دیتا ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو زمین میں امن قائم نہ ہو سکتا۔ مزید دیکھیے سورۂ حج (۴۰)۔