قَالُوا حَرِّقُوهُ وَانصُرُوا آلِهَتَكُمْ إِن كُنتُمْ فَاعِلِينَ
لوگوں نے کہا تم لوگ اسے جلا دو، اور اگر اپنے معبودوں کی مدد کرسکتے ہو تو کر گزرو۔
1۔ قَالُوْا حَرِّقُوْهُ وَ انْصُرُوْا اٰلِهَتَكُمْ: یہ قاعدہ ہے کہ جب انسان دلیل سے لاجواب ہو جاتا ہے تو یا تو نیکی اسے اپنی طرف کھینچ لیتی ہے یا بدی غالب آ جاتی ہے۔ بدی کے غلبے کی صورت میں جب اس کے پاس کوئی دلیل نہیں رہتی اور وہ مکمل طور پر لاجواب ہو جاتا ہے تو اپنے مخالف کو دھمکیاں دیتا ہے۔ دیکھیے نوح علیہ السلام کی قوم (شعراء : ۱۱۶)، ابراہیم علیہ السلام کو ان کے والد کی دھمکی (مریم : ۴۶)، لوط علیہ السلام کی قوم (شعراء : ۱۶۷)، شعیب علیہ السلام کی قوم (اعراف : ۸۸)، فرعون کی موسیٰ علیہ السلام کو دھمکی (شعراء : ۲۹) اور جادوگروں کو دھمکی (شعراء : ۴۹)۔ پھر اپنی دھمکیوں کو عملی جامہ پہناتے ہوئے اپنے لاجواب کر دینے والے حریف کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کی قوم بھی جب دلیل میں ہر طرح لاجواب ہو گئی تو ابراہیم علیہ السلام کی جان کے درپے ہو گئی۔ مشورہ ہوا کہ اسے قتل کر دو یا جلا دو۔ دیکھیے سورۂ عنکبوت (۲۴) آخر فیصلہ یہ ٹھہرا کہ اپنے معبودوں کا انتقام لینے کی اور ان کی نصرت کی یہی صورت ہے کہ اسے جلا کر راکھ بنا دو۔ 2۔ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِيْنَ : یہ الفاظ ان کے ضمیر کی کشمکش کا اظہار کر رہے ہیں کہ اول تو ابراہیم کو نقصان پہنچانے والے تمھارے کسی اقدام کا کوئی جواز نہیں۔ دلیل کا جواب دلیل ہے، مار ڈالنا نہیں، لیکن اگر تمھارے پاس اس کا کوئی علاج نہیں اور تم نے ضرور ہی اس کے خلاف کچھ کرنا ہے تو پھر معمولی سزا مت سوچو۔ اپنے معبودوں کی مدد کرتے ہوئے اس کا قصہ نہایت عبرت ناک سزا کے ساتھ ختم کرو، تاکہ آئندہ کوئی اس بحث کی جرأت ہی نہ کرے۔ (بقاعی)