وَلَئِن مَّسَّتْهُمْ نَفْحَةٌ مِّنْ عَذَابِ رَبِّكَ لَيَقُولُنَّ يَا وَيْلَنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ
اور اگر انہیں آپ کے رب کے عذاب کا ایک جھونکا بھی لگ جاتا ہے تو کہنے لگتے ہیں ہائے ہماری بد نصیبی، ہم بیشک اپنے آپ پر ظلم کرتے رہے تھے۔
1۔ وَ لَىِٕنْ مَّسَّتْهُمْ نَفْحَةٌ....: ’’ نَفْحَةٌ ‘‘ کسی چیز کا ایک دفعہ کا تھوڑا سا حصہ، مثلاً ہوا کا ہلکا سا جھونکا، آگ یا گرمی کی معمولی سی لپٹ، خوشبو کی ہلکی سی لپٹ۔یعنی آج تو یہ لوگ تکبر کی وجہ سے بہرے ہو رہے ہیں مگر جلد ہی ان کی یہ حالت بدل جائے گی اور عذاب کا تو ذکر ہی کیا، اگر صرف ایک مرتبہ اس کی ذرا سی لپٹ انھیں چھو بھی گئی تو ساری شیخی ختم ہو جائے گی اور واویلا کرنے لگیں گے، مگر اس وقت چیخ پکار کچھ فائدہ نہ دے گی۔ کفار کا عذاب دیکھتے ہی اپنے ظالم ہونے کا اقرار قرآن مجید میں کئی جگہ مذکور ہے۔ دیکھیے سورۂ مومن (۸۴، ۸۵)۔ 2۔ ہلکے سے ہلکے عذاب سے ان کی یہ حالت ہونے کی تصویر کشی کے لیے تین مبالغے استعمال کیے گئے۔ لفظ ’’مَسّ‘‘ (چھونا) اور ’’ نَفْحَةٌ ‘‘ کا لفظ، جس کا معنی کسی بھی چیز کا کم از کم ہونا ہے اور ’’ نَفْحَةٌ ‘‘ میں ’’ تاء ‘‘ جو ایک مرتبہ کے مفہوم کو واضح کرتی ہے۔ (زمخشری)