سورة الأنبياء - آیت 42

قُلْ مَن يَكْلَؤُكُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ مِنَ الرَّحْمَٰنِ ۗ بَلْ هُمْ عَن ذِكْرِ رَبِّهِم مُّعْرِضُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اے میرے رسول ! آپ کافروں سے پوچھیے کہ رات اور دن میں رحمن کے عذاب سے تمہاری حفاظت (اس کے سوا) کون کرتا ہے، بلکہ وہ لوگ اپنے رب کی یاد سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قُلْ مَنْ يَّكْلَؤُكُمْ بِالَّيْلِ....:’’ كَلَأَ يَكْلَؤُ ‘‘ (ف) پہرا دینا، حفاظت کرنا۔ (قاموس) ’’ مِنَ الرَّحْمٰنِ ‘‘ سے مراد ’’مِنْ أَمْرِ الرَّحْمَانِ‘‘ یا ’’مِنْ عَذَابِ الرَّحْمٰنِ‘‘ ہے۔ (طبری وغیرہ) پچھلی آیت میں رسولوں کا مذاق اڑانے والی گزشتہ اقوام کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کے گھیر لینے کا ذکر تھا، اس آیت میں موجود کفار سے خطاب ہے کہ وہ کون ہے جو رات یا دن کسی وقت آنے والے رحمان کے عذاب سے تمھاری حفاظت کرتا ہے؟ درحقیقت یہ سوال کفار کو لاجواب کرنے کے لیے ہے، کیونکہ اگر وہ اس کا جواب دیں تو انھیں ماننا پڑے گا کہ دن رات پیش آنے والی بے شمار آفات و مصائب سے اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کوئی ان کی حفاظت کرتا ہے اور نہ بچا سکتا ہے، اس لیے وہ اس سوال کا جواب ہی نہیں دیں گے۔ ’’ بَلْ هُمْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهِمْ مُّعْرِضُوْنَ ‘‘ بلکہ وہ ایسا جواب دینے سے گریز ہی کریں گے جس میں ان کے رب کا ذکر آئے۔ (التسہیل) زمخشری نے فرمایا: ’’بلکہ انھوں نے اپنے رب کے ذکر (یاد یا نصیحت) ہی سے منہ موڑ رکھا ہے، وہ اس کے عذاب سے کیا ڈریں گے۔‘‘ 2۔ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ’’مِنَ الرَّحْمٰنِ‘‘ کا معنی ’’بَدْلَ الرَّحْمَانِ‘‘ فرمایا ہے، یعنی وہ کون ہے جو دن رات میں آنے والی بے شمار آفات سے رحمان کے بجائے تمھاری حفاظت کرتا ہو؟ ظاہر ہے ایسا کوئی نہیں۔ 3۔ ’’ الرَّحْمٰنِ ‘‘ کے لفظ میں اشارہ ہے کہ رات دن میں پیش آنے والی بے شمار آفات و حوادث سے تمام انسانوں حتیٰ کہ کفار کی بھی ایک وقت تک حفاظت کرنا اللہ تعالیٰ کی صفت رحمت کا نتیجہ ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ مِنْ خَلْفِهٖ يَحْفَظُوْنَهٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ ﴾ [ الرعد : ۱۱ ] ’’اس کے لیے اس (انسان) کے آگے اور اس کے پیچھے یکے بعد دیگرے آنے والے کئی پہرے دار ہیں، جو اللہ کے حکم (یعنی عذاب اور دوسری آفات) سے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔‘‘ 4۔ ’’ قُلْ مَنْ يَّكْلَؤُكُمْ ‘‘ میں کفار کو مخاطب فرمایا، پھر نفرت کے اظہار کے لیے انھیں غائب کے صیغے سے ذکر فرمایا کہ ’’ بَلْ هُمْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهِمْ مُّعْرِضُوْنَ ‘‘ یعنی یہ خطاب کے قابل ہی نہیں۔ اسے التفات کہتے ہیں، اس کی ایک اور مثال کے لیے دیکھیے سورۂ یونس (۲۲)۔