سورة الأنبياء - آیت 23

لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اس کے کاموں کے بارے میں اس سے پوچھا نہیں جاسکتا ہے اور لوگوں سے ان کے کاموں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

لَا يُسْـَٔلُ عَمَّا يَفْعَلُ....: اللہ تعالیٰ کی اس صفت کے دو مطلب ہیں، ایک یہ کہ ہر چیز کا مالک اور سلطان وہ خود ہے، کسی کی کیا جرأت کہ اس کے کسی کام کے متعلق پوچھے کہ ایسا کیوں کیا؟ کیونکہ اپنی ملکیت میں وہ جو چاہے کرے۔ اگر وہ زمین و آسمان کی تمام مخلوق کو عذاب دے تو بھی عین عدل ہو گا، کیونکہ وہ مالک ہے اور اپنی چیز سے جو چاہے کرے۔ جس طرح انسان اپنی خریدی ہوئی ایک اینٹ کو مکان کی پیشانی پر لگا دیتا ہے، دوسری کو چولھے یا بھٹی میں لگا دیتا ہے اور کوئی اسے ظالم نہیں کہتا، حالانکہ وہ اینٹ کا خالق بھی نہیں، صرف عارضی مالک ہے اور اگر اللہ تعالیٰ مخلوق پر رحم فرمائے تو اس کا فضل ہے۔ دوسرا یہ کہ اس کا ہر کام اتنا محکم اور درست ہے کہ اس میں کوئی خامی یا خلل نہیں، اس نے جو کیا اور جو فرمایا سب نہایت عمدہ اور کمال حسن و خوبی والا ہے۔ اس لیے اس کے کسی کام کے متعلق سوال یا اعتراض کی گنجائش نہیں۔ مفسر بقاعی نے ایک قدیم فلسفی سے نقل کیا ہے کہ کسی نے اس سے پوچھا، جب اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے ہے اور اس کے سوا کوئی چیز نہ تھی تو اس نے یہ جہان کیوں بنایا؟ اس نے جواب دیا کہ اس سے ’’کیوں‘‘ کا سوال ہو ہی نہیں سکتا، کیونکہ کوئی اس سے اوپر ہو تو یہ سوال کرے۔ اس کے برعکس لوگوں سے دونوں وجہوں سے سوال ہو سکتا ہے اور ہو گا، کیونکہ وہ مالک نہیں غلام ہیں اور مالک غلام سے پوچھ سکتا ہے اور پوچھتا ہے کہ اس نے کوئی کام کیوں کیا اور اس لیے کہ ان کے ہر کام میں خامی اور خلل موجود ہے۔ قیامت کے دن سوال کا ذکر کئی آیات میں ہے، دیکھیے سورۂ حجر (۹۲) اور صافات (۲۴)۔