لَقَدْ أَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ كِتَابًا فِيهِ ذِكْرُكُمْ ۖ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
لوگو ! ہم نے تمہارے لیے ایک کتاب (٨) نازل کی ہے جس میں تمہارے لیے نصیحت کی باتیں ہیں، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ہو۔
لَقَدْ اَنْزَلْنَا اِلَيْكُمْ كِتٰبًا....: اس آیت میں کفار کی ان تمام پریشان کن باتوں کا اکٹھا جواب ہے جو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کے متعلق کہتے تھے کہ یہ خوابوں کی پراگندہ باتیں ہیں، یا من گھڑت باتیں ہیں، یا جادو ہے، یا شاعری ہے، تو فرمایا کہ قرآن کا ان میں سے کسی بات سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ ہم نے تو تمھاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمھارا ہی ذکر ہے، تمھارے ہی حالات اور زندگی کے معاملات پر بحث کی گئی ہے اور انھی کے متعلق تمھاری راہنمائی کی گئی ہے۔ اس میں خواب، جادو یا شاعری کی کون سی بات ہے، تو کیا تم سمجھتے نہیں؟ ’’فِيْهِ ذِكْرُكُمْ‘‘ کا ایک معنی یہ ہے کہ ایمان لانے کی صورت میں یہ کتاب ساری دنیا میں تمھاری ناموری، شہرت اور عز و شرف کا باعث ہے، جیسا کہ دوسری جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرمایا: ﴿ وَ اِنَّهٗ لَذِكْرٌ لَّكَ وَ لِقَوْمِكَ ﴾ [ الزخرف : ۴۴ ] یعنی بے شک یہ قرآن تیرے لیے اور تیری قوم کے لیے عز و شرف کا باعث ہے۔ ذکر کا ایک معنی نصیحت بھی ہے، جیسے فرمایا: ﴿ وَ ذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِيْنَ ﴾ [ الذاریات : ۵۵ ] ’’اور نصیحت کر، کیونکہ یقیناً نصیحت ایمان والوں کو نفع دیتی ہے۔‘‘ تو آیت کا ترجمہ یہ ہو گا ’’بلاشبہ یقیناً ہم نے تمھاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمھاری نصیحت کا سامان ہے۔‘‘ آیت میں ذکر کے تینوں معنی بیک وقت مراد ہو سکتے ہیں، کیونکہ ان میں کوئی باہمی تعارض نہیں۔