سورة الأنبياء - آیت 8

وَمَا جَعَلْنَاهُمْ جَسَدًا لَّا يَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوا خَالِدِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور ہم نے انہیں کوئی ایسا جسم نہیں دیا تھا کہ وہ کھانا نہ کھائیں، اور نہ انہیں ہمیشہ کی زندگی مل گئی تھی۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ مَا جَعَلْنٰهُمْ جَسَدًا ...:’’جَسَدًا ‘‘ کا معنی بے جان جسم ہے، یہ جثہ کا ہم معنی ہے۔ محقق ائمۂ لغت کا یہی قول ہے، جیسا کہ ابو اسحاق زجاج نے اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿ فَاَخْرَجَ لَهُمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌ ﴾ [ طٰہٰ : ۸۸ ] کی تفسیر میں نقل کیا ہے۔ [ التحریر والتنویر ] یہ ان کے اس اعتراض کا جواب ہے: ﴿ مَالِ هٰذَا الرَّسُوْلِ يَاْكُلُ الطَّعَامَ وَ يَمْشِيْ فِي الْاَسْوَاقِ ﴾ [الفرقان : ۷ ] ’’اس رسول کو کیا ہے کہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔‘‘ اس کے ساتھ ہی ان کا ایک اعتراض یہ بھی تھا: ﴿ هَلْ هٰذَا اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ ﴾ [ الأنبیاء : ۳ ] ’’یہ تمھارے جیسا ایک بشر ہی تو ہے۔‘‘ ان اعتراضوں کے ساتھ مطالبہ یہ تھا: ﴿ فَلْيَاْتِنَا بِاٰيَةٍ كَمَا اُرْسِلَ الْاَوَّلُوْنَ ﴾ [ الأنبیاء : ۵ ] ’’پس یہ ہمارے پاس کوئی نشانی لائے جس طرح پہلے رسول بھیجے گئے۔‘‘ ’’ فَلْيَاْتِنَا بِاٰيَةٍ ‘‘ کا جواب پہلے گزر چکا ہے۔ یہاں دوسرے دونوں اعتراضوں کا جواب دیا کہ اس سے پہلے تمام رسول جو ہم نے بھیجے، بشر تھے فرشتے نہ تھے، مرد تھے عورتیں نہ تھے۔ اسی طرح وہ بے جان جسم نہ تھے جو نہ کھاتے ہوں اور نہ بازاروں میں چلتے پھرتے ہوں، بلکہ وہ کھاتے پیتے بھی تھے اور بازاروں میں بھی چلتے پھرتے تھے۔ (فرقان : ۲۰) ان کی بیویاں بھی تھیں اور اولاد بھی۔ (رعد : ۳۸) جیسے تمھارے جد امجد ابراہیم اور اسماعیل علیھما السلام اور بنی اسرائیل کے جد امجد یعقوب، اسحاق اور ابراہیم علیھم السلام ۔ تو جب ان سب کو بشر ہونے، کھانے پینے، بازاروں میں چلنے پھرنے اور صاحب آل و اولاد ہونے کے باوجود رسول مانتے ہو تو نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول کیوں نہیں مانتے؟ 2۔ مشرکین خواہ پہلے زمانے کے ہوں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے یا ہمارے زمانے کے، سب کا ذہن یہی ہوتا ہے کہ بزرگ کھانے پینے سے بے نیاز اور بیوی بچوں سے مستغنی ہوتے ہیں اور دنیا کے دھندوں سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اسی لیے ان کی نگاہ میں بزرگ اور پیر بننے والے حضرات کمائی وغیرہ چھوڑ کر کٹیاؤں اور خانقاہوں میں ڈیرے لگا لیتے ہیں۔ ان بزرگوں کے بعض عقیدت مند ان کے متعلق عجیب و غریب قصے مشہور کر دیتے ہیں، جن کا ہونا ممکن ہی نہیں۔ اگر یقین نہ آئے تو ’’تذکرۃ الاولیاء‘‘ پڑھ لیں، مثلاً فلاں بزرگ نے پہلے ایک دن کھانے کا ناغہ کیا، پھر ایک ماہ کا، پھر ایک سال کا اور پھر ساری عمر کا۔ پنجاب کے ایک بزرگ کے متعلق ان کے عقیدت مندوں نے مشہور کر رکھا ہے کہ انھوں نے بارہ سال کچھ کھائے بغیر جنگل میں عبادت کرتے ہوئے گزار دیے، صرف ایک لکڑی کی روٹی ان کے پاس تھی، جسے کبھی کبھار وہ دانتوں سے کاٹتے تھے۔ پھر بارہ سال انھوں نے ایک کنویں میں الٹے لٹک کر اللہ کی عبادت کرتے ہوئے گزار دیے۔ ان سے کوئی نہیں پوچھتا کہ الٹا لٹکنا کون سی عبادت ہے؟ اور اس عرصے کی نمازیں، روزے اور وضو و غسل سب کہاں گئے؟ ان لوگوں کے ہاں یہ بزرگی ہے، جب کہ وہ تین صحابہ، جن میں سے ایک نے کہا تھا کہ میں ہمیشہ ساری ساری رات قیام کیا کروں گا، کبھی سوؤں گا نہیں، دوسرے نے کہا تھا کہ میں ہمیشہ دن کو روزہ رکھوں گا کبھی روزے کے بغیر نہیں رہوں گا اور تیسرے نے کہا تھا کہ میں عورتوں سے نکاح نہیں کروں گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا: ((وَاللّٰهِ ! إِنِّيْ لَأَخْشَاكُمْ لِلّٰهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ لٰكِنّيْ أَصُوْمُ وَأُفْطِرُ وَ أُصَلِّيْ وَ أَرْقُدُ وَ أَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِيْ فَلَيْسَ مِنِّيْ )) ’’اللہ کی قسم ! میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں اور تم سب سے زیادہ پرہیز گار ہوں، لیکن میں قیام کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، روزے رکھتا ہوں کبھی نہیں بھی رکھتا اور میں عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، تو جس نے میرے طریقے سے بے رغبتی کی وہ مجھ سے نہیں۔‘‘ [ بخاري، النکاح، باب الترغیب في النکاح : ۵۰۶۳ ] وَ مَا كَانُوْا خٰلِدِيْنَ : یہ بھی کفار کے ایک غلط عقیدے کا رد ہے کہ اللہ کے رسول اور خاص بندے مرتے نہیں۔ کئی جاہلوں نے ایک عبارت بنا رکھی ہے جسے وہ قرآن کی آیت قرار دے کر سناتے ہیں : ’’أَلَا إِنَّ أَوْلِيَائَ اللّٰهِ لَا يَمُوْتُوْنَ وَلٰكِنَّهُمْ مِنْ دَارٍ إِلٰي دَارٍ يَنْتَقِلُوْنَ ‘‘ ’’یاد رکھو! اللہ کے ولی مرتے نہیں، بلکہ ایک گھر سے دوسرے گھر کی طرف منتقل ہوجاتے ہیں۔‘‘ اگر کوئی شخص کہہ بیٹھے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا فلاں بزرگ فوت ہو گئے ہیں تو یہ لوگ اسے گستاخ قرار دے کر اس پر حملہ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا کہ پہلے گزرے ہوئے رسول ہمیشہ رہنے والے نہ تھے، بلکہ اپنی طبعی زندگی گزار کر فوت ہو گئے۔ دوسری جگہ فرمایا: ﴿ وَ مَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ اَفَاۡىِٕنْ مِّتَّ فَهُمُ الْخٰلِدُوْنَ ﴾ [الأنبیاء : ۳۴ ] ’’اور ہم نے تجھ سے پہلے کسی بشر کے لیے ہمیشگی نہیں رکھی، سو کیا اگر تو مر جائے تو یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔‘‘ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ زمر (۳۰، ۳۱)۔