قُلْ كُلٌّ مُّتَرَبِّصٌ فَتَرَبَّصُوا ۖ فَسَتَعْلَمُونَ مَنْ أَصْحَابُ الصِّرَاطِ السَّوِيِّ وَمَنِ اهْتَدَىٰ
آپ کہہ دیجیے کہ ہر شخص انجام کا انتظار کر رہا ہے، تو تم بھی انتطار کرلو، پس عنقریب جان لو گے کہ سیدھی راہ والے کون ہیں اور کون راہ راست پر گامزن ہے۔
1۔ قُلْ كُلٌّ مُّتَرَبِّصٌ فَتَرَبَّصُوْا....: ’’كُلٌّ‘‘ کی تنوین اس کے محذوف مضاف الیہ کی جگہ آئی ہے، یعنی’’كُلُّ وَاحِدٍ‘‘ہر ایک، مطلب یہ ہے کہ اگر پہلی کتابوں میں موجود واضح دلائل تمھارے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے لیے کافی نہیں اور تمھیں اپنی مرضی کی نشانی دیکھنے پر اصرار ہے تو تم ایمان لانے کے لیے نشانی کا انتظار کرتے رہو، ہم تمھارے لیے دنیا میں اللہ کی گرفت اور آخرت میں اس کے عذاب کا انتظار کر رہے ہیں۔ جلد ہی تمھیں معلوم ہو جائے گا کہ سیدھے راستے والے کون ہیں اور وہ کون ہے جس نے ہدایت پالی ہے؟ اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے راہ حق پر ہونے کے یقین کا اظہار ہوتا ہے، کیونکہ اتنے دعوے سے یہ بات وہی شخص کہہ سکتا ہے جسے اپنے حق پر ہونے کا مکمل یقین ہو۔ 2۔ فَتَرَبَّصُوْا : امر کے ساتھ اگر قرینہ بھی ہو تو وہ دوام کے لیے ہوتا ہے۔ یہاں قرینہ یہ ہے کہ انتظار اس وقت تک جاری رہنا ہے جب تک وہ چیز وجود میں نہ آئے جس کا انتظار ہے۔ انتظار کا یہ حکم وعید اور خبردار کرنے کے لیے ہے۔ اسے متارکہ کہتے ہیں، یعنی ہم نے تمھیں تمھاری انتظار کی حالت پر چھوڑ دیا ہے، کیونکہ ہمیں تمھارے برے انجام کا یقین ہے۔ اس کی ہم معنی آیات کے لیے دیکھیے سورۂ سجدہ (۳۰) اور سورۂ توبہ (۵۲) تاریخ شاہد ہے کہ بہت جلد کفار کو مسلمانوں کا راہ راست پر ہونا معلوم ہو گیا۔ بدر کے دن ان کو جو اسلام نہیں لائے، مثلاً ابوجہل اور کفر و شرک کے دوسرے ہلاک ہونے والے سردار اور ان کو بھی جو مسلمان ہو گئے، مثلاً ابوسفیان اور خالد بن ولید رضی اللہ عنھما اور ان سب کو جنھوں نے جزیرۂ عرب، شام، عراق، ایران، مصر اور پھر زمین کے مشرق و مغرب پر اسلام کا غلبہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی بات پوری ہوئی۔ ’’جلد ہی جان لو گے‘‘ میں یہ بھی شامل ہے کہ بہت جلد قیامت کے دن تمھیں اس بات کا علم الیقین اور عین الیقین حاصل ہو جائے گا۔ کیونکہ ’’كُلُّ آتٍ قَرِيْبٌ‘‘ کہ آنے والی ہر چیز قریب ہی ہے۔