وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا ۖ لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُكَ ۗ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَىٰ
اور آپ اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم (٦٠) دیجیے اور خود بھی اس کی پابندی کیجیے، ہم آپ سے روزی نہیں مانگتے ہیں، ہم آپ کو روزی دیتے ہیں اور بھلا انجام تقوی والوں کے لیے ہے۔
1۔ وَ اْمُرْ اَهْلَكَ بِالصَّلٰوةِ....: ’’ اصْطَبِرْ ‘‘ ’’صَبَرَ يَصْبِرُ‘‘ سے باب افتعال کا امر ہے، تاء کو طاء سے بدل دیا ہے اور حروف کے اضافے سے مبالغہ مقصود ہے، اس لیے ترجمہ ’’خوب پابندرہ‘‘ کیا گیا ہے۔ ان آیات میں بظاہر تمام اوامر کے مخاطب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، مگر امت کا ہر فرد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہونے کی وجہ سے ان کا مخاطب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مُرُوْا أَوْلَادَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِيْنَ وَاضْرِبُوْهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرِ سِنِيْنَ وَفَرِّقُوْا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ)) [أبوداؤد، الصلاۃ، باب متٰی یؤمر الغلام بالصلاۃ : ۴۹۵، عن عبد اللہ بن عمرو رضی اللّٰہ عنھما ] ’’اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جب وہ سات برس کے ہوں اور انھیں اس کی وجہ سے مارو جب وہ دس برس کے ہوں اور آپس میں ان کے بستر الگ کر دو۔‘‘ یعنی بجائے اس کے کہ آپ کے گھر والے دنیا داروں کے عیش و آرام کی طرف نگاہیں بڑھائیں، آپ انھیں نماز کی تاکید کریں اور خود بھی اس پر خوب پابندی کریں۔ کیونکہ یہ چیز ان کا اور آپ کا تعلق اللہ تعالیٰ سے جوڑ دے گی اور تم میں حلال روزی پر، چاہے وہ مقدار میں کتنی ہی تھوڑی ہو، صبر و قناعت کا جذبہ پیدا کرے گی اور اصل غنا صبر و قناعت سے ہے، نہ کہ مال و دولت سے۔ 2۔ لَا نَسْـَٔلُكَ رِزْقًا....: عام طور پر روزی کمانے کی وجہ سے آدمی اللہ تعالیٰ کی عبادت اور نماز میں سستی کرتا ہے، اس لیے فرمایا، ہمارا مطالبہ آپ سے روزی کمانے کا نہیں عبادت اور نماز کا ہے، روزی تمھیں ہم دیں گے۔ اللہ کے احکام کے مطابق زندگی بسر کرنے کا نام عبادت ہے، اللہ تعالیٰ نے انسان کو روزی کمانے کے لیے پیدا نہیں فرمایا، بلکہ اپنے احکام کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ اگر وہ اللہ کا بندہ (غلام) بن کر اس کے احکام کے مطابق زندگی بسر کرے تو اسے رزق کی کوئی کمی نہیں آئے گی، فرمایا: ﴿ وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ (56) مَا اُرِيْدُ مِنْهُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّ مَا اُرِيْدُ اَنْ يُّطْعِمُوْنِ(57) اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِيْنُ﴾ [ الذاریات : ۵۶ تا ۵۸ ] ’’اور میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا نہیں کیا مگر اس لیے کہ میری عبادت کریں، نہ میں ان سے کوئی رزق چاہتا ہوں اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں، بے شک اللہ ہی بے حد رزق دینے والا، طاقت والا، نہایت مضبوط ہے۔‘‘ انسان کی بے صبری اور بخل و حرص کا علاج نماز کی محافظت اور اس پر دوام ہے۔ دیکھیے سورۂ معارج (۱۹ تا ۳۵) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنَّ اللّٰهَ تَعَالٰی يَقُوْلُ يَا ابْنَ آدَمَ ! تَفَرَّغْ لِعِبَادَتِيْ أَمْلَأْ صَدْرَكَ غِنًی وَأَسُدَّ فَقْرَكَ وَإِلاَّ تَفْعَلْ مَلَأْتُ يَدَيْكَ شُغْلاً وَلَمْ أَسُدَّ فَقْرَكَ)) [ترمذي، صفۃ القیامۃ، باب أحادیث ابتلینا بالضراء....: ۲۴۶۶، عن أبي ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ]’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، اے ابن آدم! میری عبادت کے لیے پوری طرح فارغ ہو جا، (تو) میں تیرا سینہ غنا سے بھر دوں گا اور تیری فقیری دور کر دوں گا اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو میں تیرے دونوں ہاتھ مشغولیت سے بھر دوں گا اور تیری فقیری دور نہیں کروں گا۔‘‘ 3۔ وَ الْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوٰى : یعنی چاہے دنیا میں ان کے دن تکلیف سے گزریں مگر آخرت میں ہمیشہ رہنے والا عیش و آرام انھی کا حصہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ كَانَتِ الْآخِرَةُ هَمَّهٗ جَعَلَ اللّٰهُ غِنَاهُ فِيْ قَلْبِهٖ وَجَمَعَ لَهٗ شَمْلَهٗ وَأَتَتْهُ الدُّنْيَا وَهِيَ رَاغِمَةٌ وَمَنْ كَانَتِ الدُّنْيَا هَمَّهٗ جَعَلَ اللّٰهُ فَقْرَهُ بَيْنَ عَيْنَيْهٖ وَفَرَّقَ عَلَيْهِ شَمْلَهٗ وَلَمْ يَأْتِهٖ مِنَ الدُّنْيَا إِلاَّ مَا قُدِّرَ لَهٗ)) [ترمذي، صفۃ القیامۃ، باب أحادیث ابتلینا بالضراء....: ۲۴۶۵، عن أنس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ ] ’’جس شخص کی فکر صرف آخرت ہو اللہ تعالیٰ اس کی دولت مندی اس کے دل میں رکھ دیتا ہے اور اس کے لیے اس کے تمام معاملات جمع کر دیتا ہے اور دنیا اس کے پاس ذلیل ہو کر آتی ہے اور جس کی فکر صرف دنیا ہو اللہ تعالیٰ اس کا فقر اس کی آنکھوں کے سامنے رکھ دیتا ہے اور اس کے تمام معاملات کو بکھیر دیتا ہے اور دنیا اسے اتنی ہی ملتی ہے جو اس کے مقدر میں ہے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ دنیا و آخرت دونوں میں اچھا انجام تقویٰ ہی کا ہے۔