أَفَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُم مِّنَ الْقُرُونِ يَمْشُونَ فِي مَسَاكِنِهِمْ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّأُولِي النُّهَىٰ
کیا انہیں اس بات سے ہدایت نہیں ملی کہ ہم نے ان سے پہلے بہت سی قوموں کو ہلاک (٥٦) کردیا، جن کے گھروں میں اب یہ لوگ چل رہے ہیں، بیشک اس میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔
1۔ اَفَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ ....:’’هَدٰي يَهْدِيْ‘‘ راہنمائی کرنا۔ ’’ الْقُرُوْنِ ‘‘ ’’قَرْنٌ‘‘ کی جمع ہے۔ قرن کا معنی متعین کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سب سے زیادہ معتبر ہے، جو آپ نے عبد اللہ بن بسر رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا، آپ نے فرمایا: ((يَعِيْشُ هٰذَا الْغُلَامُ قَرْنًا، فَعَاشَ مِائَةَ سَنَةٍ)) [سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ :6؍159، ح : ۲۶۶۰ ] ’’یہ لڑکا ایک قرن زندہ رہے گا‘‘ تو وہ سو سال زندہ رہے۔‘‘ سلسلہ صحیحہ کی اس روایت میں ابن عساکر کے حوالے سے مزید یہ ہے کہ عبد اللہ بن بسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی : ’’یا رسول اللہ! میرے ماں باپ قربان! قرن کتنا ہوتا ہے؟‘‘ فرمایا : ’’سو سال۔‘‘ عبد اللہ بن بسر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں پچانوے برس جی چکا ہوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پوری ہونے میں پانچ برس رہ گئے ہیں۔ محمد بن قاسم کہتے ہیں کہ ہم نے بعد میں پانچ سال گنے، پھر وہ فوت ہو گئے۔ 2۔ قرون سے مراد عاد و ثمود ہیں، کیونکہ عرب لوگ یمن، نجران اور اس کے گرد و نواح کی طرف جاتے ہوئے قوم عاد کے رہنے کی جگہوں سے گزرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم تبوک کے سفر میں ثمود کے مکانات سے گزرے تھے۔ اسی طرح ان سفروں میں قوم لوط اور اہل مدین کی تباہ شدہ بستیاں سب سے بڑی شاہراہ پر واقع تھیں، جہاں سے وہ صبح و شام گزرتے تھے۔ دیکھیے سورۂ حجر (۷۶ تا ۷۹) اور صافات (۳۳ تا ۳۸)۔ 3۔ اس سورت میں پیغمبروں کو جھٹلانے والے لوگوں کا اور ان کے بدترین انجام کا ذکر گزر چکا ہے۔ حق یہ تھا کہ اہل عرب تاریخ سے سبق حاصل کرتے اور کفر و شرک سے باز آ جاتے، مگر وہ اپنی سرکشی پر جمے رہے۔ اس لیے بطور تعجب فرمایا کہ کیا اس بات نے ان کی رہنمائی نہیں کی کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہلاک کر ڈالا، جن کے رہنے کی جگہوں میں یہ چلتے پھرتے ہیں اور جنھیں دیکھنے سے صاف نظر آتا ہے کہ وہ لوگ قد و قامت، صنعت و زراعت اور قوت و مہارت میں ان سے بہت زیادہ ترقی یافتہ تھے۔ مدائن صالح، اہرام مصر اور دوسرے آثار قدیمہ شاہد ہیں کہ اس قوت کے لوگ پھر پیدا نہیں ہوئے۔ دیکھیے سورۂ فجر (۶ تا ۱۴) اور سورۂ روم (۹، ۱۰) ان لوگوں کے آثار آنکھوں سے دیکھ کر اور اپنے آبا و اجداد سے تواتر کے ساتھ ان کی قوت و ہیبت اور عذابِ الٰہی سے بربادی کے واقعات سن کر بھی کیا ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ اگر یہ لوگ بھی ان کی روش پر اڑے رہے تو ان کا انجام کیا ہو گا؟ 4۔ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي النُّهٰى : ’’ النُّهٰى ‘‘ کی تفسیر اسی سورت کی آیت (۵۴) میں دیکھیے۔ ’’ النُّهٰى ‘‘ جمع ہونے کی وجہ سے ترجمہ ’’عقلوں والے‘‘ کیا ہے اور ’’ لَاٰيٰتٍ ‘‘ پر تنوین تعظیم کی وجہ سے ترجمہ ’’کئی عظیم نشانیاں‘‘ کیا ہے۔