قَالَ كَذَٰلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا ۖ وَكَذَٰلِكَ الْيَوْمَ تُنسَىٰ
اللہ کہے گا اسی طرح تمہارے پاس میری آیتیں آئی تھیں تو تم نے انہیں بھلا دیا تھا اور اسی طرح آج تم بھلا دیئے جاؤ گے۔
1۔ قَالَ كَذٰلِكَ اَتَتْكَ....: ’’ كَذٰلِكَ ‘‘ (اسی طرح) سے مراد ’’اندھا ہونا‘‘ ہے، جس کا ذکر سوال میں ہے کہ پروردگارا! تو نے مجھے اندھا کیوں اٹھایا؟ جواب ملے گا : ﴿قَالَ كَذٰلِكَ اَتَتْكَ اٰيٰتُنَا فَنَسِيْتَهَا﴾کہ اسی طرح تیرے پاس ہماری آیات آئیں تو تو انھیں بھول گیا۔ دونوں آیتوں کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ ایک لمبی بات کو اس طرح مختصر کیا گیا ہے کہ حذف شدہ الفاظ خود بخود سمجھ میں آ رہے ہیں۔ سوال میں اندھے ہونے کا ذکر ہے، جواب میں بھلانے کا ذکر ہے۔ یہ اختصار تین جگہوں پر ہے، پہلا اختصار ’’ وَ نَحْشُرُهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اَعْمٰى (وَ نَنْسَاهُ) ‘‘ ’’ہم قیامت کے دن اسے اندھا کر کے اٹھائیں گے (اور اسے بھلا دیں گے)‘‘ دوسرا اور تیسرا اختصار ’’قَالَ كَذٰلِكَ اَتَتْكَ اٰيٰتُنَا فَنَسِيْتَهَا ( وَ عَمِيْتَ عَنْهَا ) وَ كَذٰلِكَ الْيَوْمَ ( وَ تُحْشَرُ أَعْمٰي ) “ ’’وہ فرمائے گا، اسی طرح تیرے پاس ہماری آیات آئیں تو تو انھیں بھول گیا (اور ان سے اندھا بن گیا) اور اسی طرح آج تو بھلایا جائے گا (اور اندھا کرکے اٹھایا جائے گا)۔‘‘ اسے بلاغت کی اصطلاح میں ’’ اِحْتِبَاكٌ ‘‘ کہتے ہیں۔ (ابن عاشور) 2۔ واضح رہے کہ آیات کو بھلانے سے مراد یہاں ان پر ایمان نہ لانا اور عمل نہ کرنا ہے، حفظ کرنے کے بعد بھول جانا مراد نہیں۔ اس کی دلیل اگلی آیت ہے: ﴿ وَ كَذٰلِكَ نَجْزِيْ مَنْ اَسْرَفَ وَ لَمْ يُؤْمِنْۢ بِاٰيٰتِ رَبِّهٖ ﴾ [ طٰہٰ : ۱۲۷ ] ’’اور اسی طرح ہم اس شخص کو جزا دیتے ہیں جو حد سے گزرے اور اپنے رب کی آیات پر ایمان نہ لائے۔‘‘ ایمان لانے والا شخص جو حفظ کے بعد کسی بیماری یا مصروفیت کی وجہ سے کچھ آیات بھول جائے وہ اس میں داخل نہیں ہے۔ 3۔ قرآن یاد کرنے کے بعد بھول جانے پر وعید کی کوئی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔ چند ضعیف روایات درج ذیل ہیں : (1) مسند احمد (۵؍۲۸۵، ح : ۲۲۵۲۴) میں سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((وَمَا مِنْ رَجُلٍ قَرَأَ الْقُرْآنَ فَنَسِيَهٗ إِلاَّ لَقِيَ اللّٰهَ يَوْمَ يَلْقَاهٗ وَهُوَ أَجْذَمُ )) ’’اور کوئی بھی شخص جو قرآن پڑھے پھر اسے بھول جائے وہ اللہ تعالیٰ سے جس دن ملے گا تو اس حال میں ملے گا کہ کوڑھی ہو گا۔‘‘ اس کی ایک سند میں عیسیٰ بن فائد مجہول راوی ہے، اس کا شیخ بھی مجہول ہے۔ دوسری سند میں بھی عیسیٰ بن فائد مجہول ہے۔ (2) سنن ابو داؤد (۴۶۱) اور ترمذی (۲۹۱۶) میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((عُرِضَتْ عَلَيَّ أَجُوْرُ أُمَّتِيْ حَتَّی الْقَذَاةُ يُخْرِجُهَا الرَّجُلُ مِنَ الْمَسْجِدِ وَعُرِضَتْ عَلَيَّ ذُنُوْبُ أُمَّتِيْ فَلَمْ أَرَ ذَنْبًا أَعْظَمَ مِنْ سُوْرَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ أُوْتِيَهَا رَجُلٌ ثُمَّ نَسِيَهَا )) ’’میرے سامنے میری امت کے اجر پیش کیے گئے، یہاں تک کہ وہ تنکا بھی جسے آدمی مسجد سے نکالے اور میرے سامنے میری امت کے گناہ پیش کیے گئے، تو میں نے اس سے بڑا کوئی گناہ نہیں دیکھا کہ کسی آدمی کو قرآن کی کوئی سورت یا آیت عطا کی گئی پھر اس نے اسے بھلا دیا۔‘‘ شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس کی سند ضعیف ہے، کیونکہ ابن جریج اور مطلب بن عبد اللہ دونوں مدلس ہیں اور اسے ’’عن‘‘ کے لفظ سے روایت کرتے ہیں اور بخاری اور ترمذی نے اسے ضعیف قرار دیا۔ تفصیل کے لیے دیکھیں ضعیف ابی داؤد (۷۱)۔ 4۔ ضعیف اور موضوع روایات نے امت کو کس قدر نقصان پہنچایا اس کا اندازہ نہیں ہو سکتا۔ میں نے بہت سے مردوں اور عورتوں کو دیکھا کہ وہ ان روایات ہی کی وجہ سے قرآن حفظ کرنے سے محروم رہے، حالانکہ یہ بات صاف ظاہر ہے کہ جسے کسی مصروفیت یا بیماری یا غفلت کی وجہ سے قرآن بھول جائے وہ اس شخص سے ہزار گنا بہتر ہے جس نے قرآن پڑھا ہی نہیں، یا یاد ہی نہیں کیا، کیونکہ وہ اس سے تو ہر حال میں قرآن کا علم زیادہ رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔ اسے سب سے بڑے گناہ شرک کے قائم مقام قرار دینا یا کوڑھی ہونے کا باعث قرار دینا راویوں کی جہالت اور تدلیس ہی کا کارنامہ ہے۔