سورة طه - آیت 124

وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

او جو شخص میری یاد سے روگردانی (٥٥) کرے گا وہ دنیا میں تنگ حال رہے گا اور قیامت کے دن اسے ہم اندھا اٹھائیں گے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ مَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ : ذکر سے مراد اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی نصیحت ہے، جیسا کہ فرمایا: ﴿ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ ﴾ [ الحجر :۹] ’’بے شک ہم، ہم نے ہی یہ ذکر یعنی نصیحت نازل کی ہے اور بے شک ہم اس کی ضرور حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘ فَاِنَّ لَهٗ مَعِيْشَةً ضَنْكًا : ’’مَعِيْشَةً ‘‘ زندگی، وہ چیزیں جن پر زندگی گزرتی ہے، مثلاً کھانا پینا اور دوسری ضروریات۔ (قاموس) ’’ضَنْكًا ‘‘ ’’ضَنُكَ يَضْنُكُ ضَنْكًا وَضُنَاكًا وَ ضَنَاكَةً ‘‘ مصدر بمعنی اسم فاعل ہے، اس لیے ’’مَعِيْشَةً ‘‘ کی صفت ہونے کے باوجود لفظ میں تبدیلی نہیں ہوئی، یہ واحد و جمع اور مذکر و مؤنث سب کے لیے ایک ہی رہتا ہے، یعنی وہ تنگی والی زندگی گزارے گا۔ اس کی تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے، اس لیے وہ سب سے راجح ہے۔ صحیح ابن حبان میں ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ عزو جل کے اس قول ’’ فَاِنَّ لَهٗ مَعِيْشَةً ضَنْكًا ‘‘کے متعلق روایت کیا، آپ نے فرمایا : (عَذَابُ الْقَبْرِ ) ’’(مراد) عذاب قبر ہے۔‘‘ ’’اَلتَّفْسِيْرُ الصَّحِيْحُ الْمَسْبُوْرُ‘‘ میں اسے الاحسان (۳۱۱۹)، مستدرک حاکم (۱؍۳۸۱، ح : ۱۴۰۵) اور کئی کتابوں سے نقل کیا گیا ہے اور مختلف ائمہ سے اس کا حسن، جید یا صحیح ہونا بھی نقل کیا گیا ہے۔ امام طبری نے ابن عباس رضی اللہ عنھما سے حسن سند کے ساتھ اس کی تفسیر ’’الشقاء‘‘ فرمائی ہے۔ ’’الشقاء‘‘ کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ طہ (۲) ’’مَعِيْشَةً ضَنْكًا ‘‘ کے الفاظ میں دنیا اور قبر دونوں کی تنگ زندگی شامل ہے۔ اللہ کی نصیحت سے منہ موڑنے والا شخص اللہ پر توکل اور اس کے عطا کردہ پر قناعت سے محرومی کی وجہ سے ہر وقت زیادہ سے زیادہ مال و جاہ کی ہوس میں مبتلا رہتا ہے۔ مال کی دو وادیاں ملنے پر تیسری کی تلاش میں چل نکلتا ہے۔ باؤلے کتے کی پیاس کی طرح اس کی حرص ختم نہیں ہوتی۔ اربوں کھربوں کا مالک ہونے کے باوجود فقیر ہوتا ہے، حرص اور بخل کی کمینگی کی وجہ سے اسے کسی کی دلی محبت حاصل نہیں رہتی۔ اموال و اولاد اس کے لیے راحت بننے کے بجائے اللہ کی طرف سے عذاب بن جاتے ہیں۔ دیکھیے سورۂ توبہ (۵۵، ۸۵) پھر وہ وقت آ جاتا ہے کہ اسے گولیوں کے بغیر نیند نہیں آتی اور ہر آسائش حاصل ہوتے ہوئے بھی اسے اس رنج و الم سے بھری ہوئی زندگی سے چھٹکارے کی کوئی صورت خود کشی کے سوا نظر نہیں آتی۔ یقین نہ ہو تو جاپان، سویڈن، ناروے وغیرہ میں خود کشی کا تناسب دیکھ لیں۔ وَ نَحْشُرُهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اَعْمٰى : دنیا میں اللہ تعالیٰ کی آیات سے کان اور آنکھیں بند کر لینے اور حق کو تسلیم نہ کرنے کی پاداش میں قیامت کے دن اسے اندھا، گونگا اور بہرا کرکے اٹھایا جائے گا۔ (بنی اسرائیل : ۹۷) قیامت کا دن پچاس ہزار سال کا ہے۔ دیکھیے سورۂ معارج (۴) اس کے مختلف اوقات میں لوگوں کے احوال مختلف ہوں گے۔ قبر سے اٹھتے وقت وہ اندھا ہو گا، پھر جہنم کی ہولناکی اور اہل ایمان کی عزت دکھانے کے لیے بینا کر دیا جائے گا۔ دیکھیے سورۂ طور (۱۴، ۱۵) اور سورۂ مریم (۳۸)۔