ثُمَّ اجْتَبَاهُ رَبُّهُ فَتَابَ عَلَيْهِ وَهَدَىٰ
پھر ان کے رب نے انہیں چن لیا، تو ان کی توبہ قبول کرلی، اور انہیں راہ راست پر ڈال دیا۔
1۔ ثُمَّ اجْتَبٰهُ رَبُّهٗ: ’’جَبَي يَجْبِيْ‘‘ (ض) کا معنی کھینچ کر لانا ہے، جیسا کہ فرمایا: ﴿ اَوَ لَمْ نُمَكِّنْ لَّهُمْ حَرَمًا اٰمِنًا يُّجْبٰى اِلَيْهِ ثَمَرٰتُ كُلِّ شَيْءٍ ﴾ [ القصص : ۵۷ ] ’’اور کیا ہم نے انھیں ایک باامن حرم میں جگہ نہیں دی؟ جس کی طرف ہر چیز کے پھل کھینچ کر لائے جاتے ہیں۔‘‘ ’’اِجْتَبَي‘‘ (افتعال) کا معنی کسی چیز کو اپنے لیے لے لینا، چن لینا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے آدم علیہ السلام کو اپنے لیے کھینچ لینے اور چن لینے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے دل میں توبہ کا خیال ڈالا، انھیں توبہ کی توفیق دی اور توبہ کے کلمات کی تعلیم دی، جیسا کہ فرمایا: ﴿ فَتَلَقّٰى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ﴾ [ البقرۃ : ۳۷ ] ’’پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ لیے تو اس نے اس کی توبہ قبول فرما لی۔‘‘ قرآن کے مطابق وہ کلمات یہ تھے: ﴿ رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ ﴾ [ الأعراف : ۲۳ ] ’’اجْتَبٰهُ رَبُّهٗ ‘‘ میں لفظ ’’ رَبُّهٗ ‘‘ اس چننے کے سبب کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ 2۔ فَتَابَ عَلَيْهِ وَ هَدٰى : یعنی اس کی توبہ قبول فرمائی اور ہدایت دی، یعنی صراط مستقیم پر گامزن کر دیا اور اس پر ثابت قدمی عطا فرمائی۔ ابن عاشور نے لکھا ہے کہ قرآن مجید میں جہاں ’’اِجْتِبَاء‘‘ اور ’’ہدایت‘‘ کے الفاظ اکٹھے آئیں وہاں نبوت عطا کرنا مراد ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا: ﴿ وَ اجْتَبَيْنٰهُمْ وَ هَدَيْنٰهُمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ ﴾ [ الأنعام : ۸۷ ] اور فرمایا: ﴿ اِجْتَبٰىهُ وَ هَدٰىهُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ ﴾ [ النحل : ۱۲۱ ] اور تیسری آیت یہ ہے۔ 3۔ آدم علیہ السلام کا گناہ توبہ و استغفار کی وجہ سے ان کے لیے پہلے سے بھی زیادہ بلند مقام کا ذریعہ بن گیا۔ اس سے اللہ تعالیٰ کی حکمت ظاہر ہوتی ہے کہ اس نے انبیاء سے غلطی کا صادر ہونا ناممکن کیوں نہیں بنا دیا اور وہ ہے رسول کا غلطی سرزد ہونے کے بعد توبہ و استغفار میں اپنی امت کے لیے اسوہ اور نمونہ بننا۔ کیونکہ غلطی کے بعد والی ندامت، آہ و زاری، آئندہ نہ کرنے کا عزم اور پچھلی غلطی پر دن رات استغفار اللہ تعالیٰ کو اس قدر پسند ہے کہ اگر انسان سے غلطی نہ ہو، جس کے بعد وہ توبہ و استغفار کرے، تو اللہ تعالیٰ بنی آدم کی صف لپیٹ کر گناہ کرنے والی کوئی اور قوم لے آئے، جوگناہ کرے، پھر استغفار کرے اور اللہ تعالیٰ انھیں معاف فرمائے۔ [ مسلم، التوبۃ، باب سقوط الذنوب بالاستغفار والتوبۃ : ۲۷۴۹، عن أبي ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ] پھر اس مہربان رب کی رحمت اور لطف و کرم کی کیا حد ہے جو توبہ کے بعد پہلے گناہوں کو بھی نیکیوں میں بدل دیتا ہے۔ دیکھیے سورۂ فرقان (۷۰) اللہ تعالیٰ ہم گناہ گاروں کو بھی ایسی ہی توبہ کرنے والوں میں شامل فرما لے۔ (آمین) 4۔ درخت میں سے کھانے کے بعد یہاں توبہ قبول کرنے کا ذکر پہلے ہے اور زمین پر اترنے کا حکم بعد میں، حالانکہ اصل ترتیب یہ تھی کہ درخت میں سے کھاتے ہی انھیں جنت سے نکال دیا گیا، مگر یہاں آدم علیہ السلام کی توبہ کا قبول ہونا اور نبوت عطا ہونا پہلے اس لیے ذکر فرمایا کہ سننے والوں کو آدم علیہ السلام کا انجام معلوم ہو جائے کہ وہ کس قدر اچھا ہوا۔